جہنم کا دروازہ، آگ کا تہوار اور بھٹکتی روحیں: ہیلووین کا تہوار کہاں سے آیا؟

بعض مغربی اور ایشائی ممالک میں اگر آپ 31 اکتوبر کو سورج ڈھلنے کے بعد باہر نکلیں تو گھروں کی دہلیز پر مکڑی کے جالے، انسانی ڈھانچے اور کدو سے تراشے ہوئے سر نظر آئیں گے۔

ان کدوؤں میں آنکھ نما بڑے بڑے سوراخ اور دانتوں کے بیچ سے نظر آنے والی روشنی ماحول کو مزید خوفناک بنا رہی ہوتی ہے اور اکثر ایسا گمان ہوتا ہے جیسے آپ کو اچانک کوئی بھوت، چُڑیل یا بدروح نظر آ گئی ہو۔

لیکن ان چیزوں کو دیکھ کر اُلٹے پاؤں فرار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہیلووین کا تہوار ہے۔ ہیلووین کے تہوار کی اصل بُنیاد صدیوں پُرانی روایات، افسانے اور پُراسرار کہانیاں ہیں۔

موجودہ زمانے میں ہیلووین کے تہوار پر لوگ ڈراؤنے کپڑے پہنتے ہیں، کدو کی کٹائی کر کے اسے کسی خوفناک چہرے میں تبدیل کر دیتے ہیں اور ’ٹِرک اور ٹریٹ‘ کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

دراصل ہیلووین کی اصل ابتدا آئرلینڈ میں ہوئی تھی۔ تاہم دُنیا بھر میں متعدد ممالک دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ہیلووین کو ایک بین الاقوامی تہوار میں بدلا۔

کدو کو کاٹ کر خوفناک شکل کیوں دی جاتی ہے؟

کدو کو کاٹ کر خوفناک شکل کیوں دی جاتی ہے؟

آئرلینڈ میں قحط کے سبب 19ویں صدی میں آئرش پناہ گزین دنیا کے دیگر ممالک منتقل ہونا شروع ہوئے اور یہی لوگ اپنے ساتھ ہیلووین کا تہوار ساتھ لائے تھے۔

جب یہ روایات امریکہ پہنچیں تو وہاں انھیں جدید شکل دے دی گئی اور شلجم کی جگہ کدو نے لے لی۔ آئرلینڈ میں کدو کو کاٹ کر خوفناک چہرے نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ ان کی جگہ شلجم کا استعمال ہوتا تھا۔

ہیلووین سے جُڑی ٹِرک اور ٹریٹ کے کھیل نے بھی امریکہ آ کر ہی جدید شکل اختیار کی۔ اب بچے دنیا بھر میں دروازوں پر دستک دے کر لوگوں کو ’ٹِرک اور ٹریٹ‘ کی آوازیں لگاتے ہیں یعنی کہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ چاکلیٹ اور ٹافیاں دے کر اپنا جان چُھڑوانے چاہتے ہیں یا پھر وہ کسی شرارت کا نشانہ بننا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: گیدڑ نے پنجرے میں بند درجنوں قیمتی پرندوں کو مار ڈالا

کاؤنٹی میتھ: دا ہِل آف وارڈ

کاؤنٹی میتھ: دا ہِل آف وارڈ

ہیلووین کی پیدائش کے حوالے سے سب سے اہم دعویٰ آئرلینڈ کے علاقے کاؤنٹی میتھ کے لوگ کرتے ہیں اور یہیں دا ہِل آف وارڈ نامی مقام واقع ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ساؤن کے جشن کی شروعات ہوئی تھی۔ ساؤن وہ وقت ہوتا ہے جب فصلوں کی کٹائی مکمل ہو رہی ہوتی ہے اور خزاں کے بعد سردیوں کا موسم شروع ہو رہا ہوتا ہے۔

ساؤن کے جشن کے دوران کیلٹک افراد آگ جلاتے ہیں اور عالم ارواح سے آنے والی روحوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

پورے آئرلینڈ میں یہ تہوار اسی طرح منایا جاتا ہے لیکن کاؤنٹی میتھ میں جلایا جانے والا آتش کدہ اپنے حجم کے اعتبار سے سب سے بڑا ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف ڈبلن سے منسلک ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر سٹیو ڈیوس اس ٹیم میں شامل تھے جس نے سنہ 2014 میں کاؤنٹی آف میتھ میں موسمِ گرما گزارا تھا۔

انھوں نے سنہ 2014 میں Uses in Urdu کو بتایا تھا کہ ’آئرلینڈ میں ایسے چند ہی مقامات جن کا موازنہ ہم ہِل آف وارڈ سے کر سکتے ہیں۔‘

’یہ ایک جادوئی اور پُراسرار جگہ ہے۔‘

ان کے مطابق انھیں اس مقام پر ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آگ جلائی جاتی تھی۔

’اس جگہ کو آگ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں لکھی گئی تحریروں سے بھی یہاں آگ کا سالانہ تہوار منعقد ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔‘

ساؤن تہوار اور ’جہنم کا دروازہ‘

ساؤن تہوار اور ’جہنم کا دروازہ‘

کیلٹک افراد کے مطابق ساؤن کا تہوار گذشتہ دو ہزار برسوں سے منایا جا رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس دوران دُنیا اور عالمِ ارواح کے درمیان فاصلہ کم ترین سطح پر ہوتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ساؤن کی رات زمین پر روحیں بھٹک رہی ہوتی ہیں اور کیلٹک افراد آگ جلا کر ان روحوں میں موجود بدروحوں کو بھگا رہی ہوتی ہیں۔

ڈیری آئرلینڈ کا ایک اور شہر ہے جہاں کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہیلووین کی جڑیں ان سے جا کر ملتی ہیں۔ ہیلووین کے موقع پر ڈیری میں شاندار جشن منایا جاتا ہے اور اس شہر کی ساکھ اب ایسی بن چکی ہے کہ لوگ دور دور سے چھٹیاں منانے یہاں آتے ہیں۔

ڈیری میں ہیلووین کا تہوار پریڈز، آتش بازی اور کہانیاں سُنا کر منایا جاتا ہے۔ شاید ساؤن کا تہوار ڈیری میں نہ شروع ہوا ہو لیکن اس شہر نے اس تہوار کو آج بھی ایک زندہ رکھا ہوا ہے۔

آئرلینڈ کی روسکوم کاؤنٹی میں بھیڑوں کی کثرت ہے اور لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ہالووین کے تہوار کی اصل جگہ یہی ہے۔

یہاں وہ غار بھی ہے جسے آئرلینڈ میں 'جہنم کا دروازہ' کہا جاتا ہے۔ یہ راٹھکروشن نامی قدیم علاقے میں واقع ہے اور یہاں تقریباً 240 ایسے مقامات ہیں جن کی تاریخ ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہے۔

مقامی ماہرِ آثار قدیمہ ڈینیل کرلی نے 2022 میں Uses in Urdu کو بتایا تھا کہ 'تقریباً دو ہزار سال پہلے یہاں کے مقامی لوگ سمجھتے تھے کہ دونوں جہانوں کے درمیان یہ دروازہ 31 اکتوبر کو کھلتا ہے۔'

مقامی افراد کے عقائد کی وضاحت کرتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ 'وہ سمجھتے تھے کہ اس دروازے سے بھوت اور بیماریاں موریگن کی دیوی کے ساتھ آتی ہیں۔'

'مقامی لوگ اس دوران اپنے گھروں میں رہتے ہیں، اس خوف سے کہ کہیں دوسری دنیا سے آنے والی بدروحیں انہیں اپنے ساتھ نہ لے جائیں۔'

ڈینیل کرلی کے مطابق 'اگر آپ کو باہر جانا پڑے تو آپ لباس تبدیل کریں اور ماسک لگائیں تاکہ آپ کی شناخت نہ ہو سکے۔'

'اس طرح آپ محفوظ رہیں گے اور آپ کو دوسری دنیا میں گھسیٹ کر نہیں لے جایا جائے گا۔'

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...