پڑوسی سے دشمن تک، جسٹس اعجاز الاحسن اور شریف خاندان کی کہانی

جسٹس (ر) اعجاز الاحسن اور شریف خاندان کے درمیان تعلقات
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) کیا جسٹس (ر) اعجاز الاحسن کی شریف خاندان سے کوئی ذاتی رنجش تھی، جیسا کہ ان کے فیصلوں اور ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: شاپنگ کیلئے مخصوص ’’ڈرون کارٹ‘‘ متعارف
ماضی کے واقعات
انگریزی اخبار دی نیوز نے دو ایسے واقعات اور تفصیلات کا پتہ لگایا ہے جن کی وجہ سے ریٹائرڈ جج کی شریف فیملی کے ساتھ رنجش کو بڑھاوا ملا ہو۔ ایک واقعہ تقریباً 25 سال قبل پیش آیا جبکہ دوسرا جاری مسئلہ ان کی ناراضگی کو ہوا دیتا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کو دوپہر تین بجے پیش کرنے کا حکم
آئینی تقاضے
ملک کا آئین ججز سے اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہیں اور کسی کے متعلق ناپسندیدگی کا جذبہ نہ رکھیں، یہی بات ججز کے حلف میں بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عابد کی حیرت انگیز کہانی: 70 سال کی عمر میں خواہشات سے آزادی
برطرفی کا واقعہ
سابق جج کی شریف خاندان کے ساتھ رنجش کا تعلق اوّل الذکر کے بڑے بھائی میجر (ر) اظہار الاحسن سے جڑا ہے۔ پاکستان سٹیل میلٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دینے والے اظہار الاحسن کو ایسوسی ایشن کی سفارش پر لاہور میں اتفاق فاؤنڈری میں مارکیٹنگ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ تاہم 1990ء کی دہائی کے آخر میں جب نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نے اتفاق فاؤنڈری کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے اظہار الاحسن سمیت سینئر مینجمنٹ ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں فوراً برطرف کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایس آئی ایف سی اپیکس کمیٹی کا اجلاس پیر کو طلب کرنے کا فیصلہ
سعودی عرب میں واقعہ
20134ء میں اظہار الاحسن کچھ تاجروں کے ہمراہ سعودی عرب میں شریف خاندان کی سٹیل مل کے دورے پر پہنچے اور پیشگی نوٹس یا ملاقات کی اطلاع کے بغیر حسین نواز کے دفتر میں داخل ہو گئے۔ حسین نواز کی جانب سے سرد مہری نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: داؤد ابراہیم سونے کا سب سے بڑا سمگلر کیسے بنا؟ غریب پولیس کانسٹیبل کا بیٹا انڈر ورلڈ کا ڈان، ڈی-کمپنی کی وہ باتیں جو شاید آپ کو معلوم نہیں
پڑوسی کے مسائل
ایک اور جاری معاملہ یہ ہے کہ سابق جج ماڈل ٹاؤن لاہور میں شریف فیملی کے پڑوسی ہیں۔ 2008ء سے جب شریف فیملی پنجاب میں برسر اقتدار تھی، ان کی مشترکہ گلی میں سکیورٹی رکاوٹیں اور پروٹوکول ہائی الرٹ رہا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان رکاوٹوں پر اپنے افسوس کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں مظاہرین کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ، پی ٹی آئی کے سینکڑوں کار کنان گرفتار
حفاظتی رکاوٹیں
2018ء میں شریف فیملی جب اقتدار سے محروم ہوئی تو جسٹس (ر) اعجاز الاحسن نے ان کے گھر کے اردگرد تمام حفاظتی رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا۔ یہ صورتِ حال ریٹائرڈ جج کی شریف فیملی کے لئے ناراضی کو ہوا دیتی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: 76 لاکھ سے زائد مالیت کے آئی فون سمگلنگ کیس کی ملزمہ کی ضمانت منظور
پاناما کیس میں کردار
جن لوگوں نے 2017ء میں شریف فیملی کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا تھا وہ ان ذاتی رنجشوں سے واقف تھے، یہی وجہ تھی کہ پاناما کیس کے بینچ میں جسٹس اعجاز کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جلاؤ گھیراؤ کیس: عظمیٰ خان اور علیمہ خان کی عبوری ضمانتوں میں توسیع
احتساب عدالت میں مانیٹرنگ
پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن کو احتساب عدالت میں شریف خاندان کے ٹرائل کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ جج مقرر کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کے خلاف ان کے اقدامات سے غصے کی شدت عیاں ہوتی ہے۔
اُن کی خاموشی
دی نیوز نے 15 اکتوبر کو جسٹس (ر) اعجاز الاحسن کو ایک تفصیلی سوالنامہ بھیجا، مگر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ مختلف یاد دہانیوں کے بعد بھی وہ تاحال خاموش ہیں۔