سب بند گلی میں ہیں، عمران خان نے ناکامیوں کا ریکارڈ بنا رکھا ہے، کیسے مان لوں احتجاج کامیاب ہوگا؟ حافظ اللہ نیازی کھل کر بول پڑے۔
سیاسی صورتحال کا تجزیہ
لاہور (خصوصی رپورٹ) سب بند گلی میں ہیں، عمران خان ہوش و حواس سے دور ہیں، جھوٹ کو سچ پر ترجیح دی گئی ہے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی اپنی نیت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ عمران خان نے ناکامیوں کا ریکارڈ بنا رکھا ہے ‘‘، کیسے مان لوں کہ احتجاج کامیاب ہوگا؟ سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی کھل کر بول پڑے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں 13سے زیادہ ججز نہیں ہونے چاہئیں، فواد چوہدری
کالم کا عمومی موضوع
اخبار "جنگ" میں شائع ہونے والے اپنے کالم بعنوان ’’درد کچھ اور ہی بڑھ گیا‘‘ میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ: "میں نے جو کی دوائے دل"، یہی کچھ کہانی ہے مقبول سیاسی رہنما کی۔ وطن عزیز آج جس سیاسی دلدل میں ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، دل دہل جاتا ہے۔ دعویٰ ہے کہ آج کا سیاسی بحران کئی مدوں میں 1971ء کے بحران سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ لاینحل سیاسی عدم استحکام سے دوچار، "نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن"۔ لرزہ براندام ہوں کہ حکومت، ادارے، سیاسی جماعتیں بشمول مقبول قومی رہنما، 25 کروڑ لوگ، سب بند گلی میں ہیں۔ حیف! جن کو سنگینی کا ادراک ہے، ان کی خوش فہمی و خوش گمانی ساتویں آسمان پر ہے، دوسری طرف جم غفیر بیگانگی اور لاتعلقی سے مزین ہے، ایسی بے نوری اور ابتلاء میں دیدہ ور چاہیے تھا، تاحد نگاہ موجود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلپائن: سمندری طوفان ٹرامی سے تباہی، 40 افراد ہلاک، ہزاروں بے گھر
عمران خان کی سیاسی زندگی
اقتدار سے محرومی پر عمران خان ہوش و حواس سے دور ہو گئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا، اور جھوٹ کو سچ پر ترجیح دی۔ اپنی 28 سالہ سیاسی عمر میں پہلی دفعہ 2022 میں سیاسی مقبولیت سے متعارف ہوئے، تو آپے سے باہر ہونا بنتا تھا۔ عسکری قیادت کو للکارا، عمران خان کا یہ رول بمطابق جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کا تیار کردہ سکرپٹ ہی تو تھا۔ عمران خان کی بدقسمتی یہ رہی کہ ساری سیاسی زندگی کے احتجاج، پروگرام دانستہ یا نادانستہ اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت نے 14 سالہ لڑکے کی جان لے لی، ’کیریکٹر ڈاٹ اے آئی‘ کو مقدمے کا سامنا
سیاسی ناکامیاں اور اس کے اسباب
کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ اقتدار سے علیٰحدہ ہوتے ہی عمران خان نے بزور بازو شہباز حکومت ختم کرنے کی ٹھانی تو شہ دینے والا جنرل فیض موجود تھا۔ اگر فیض سے فیضیابی کا سلسلہ جاری نہ رہتا تو 26 مئی کی تضحیک آمیز پسپائی کے بعد سیاست دم توڑ چکی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل مدد اور مقبول قومی رہنما کی بقلم خود ولولہ انگیز قیادت، سوشل میڈیا کی طاقت، کیا سبق سیکھا گیا کہ ایسا ہر خانہ ناکامی و نامرادی سے بھرا پڑا ہے۔ 2014 تا 2022 مظاہروں کی ناکامیوں کا ہزیمت آمیز سفر تھا، کاش فیصلہ سازی کو بہتر کر لیتے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد میں کمی
آنے والا احتجاج اور توقعات
کالم کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ حال ہی میں 24 نومبر (2 دن بعد) احتجاج کی کال بعنوان "مارو یا مر جاؤ"، الٹی گنتی شروع ہے۔ اپنی کہی بات کو دہراتا ہوں، ’’عمران خان نے ناکامیوں کا ریکارڈ بنا رکھا ہے‘‘، کیسے مان لوں کہ احتجاج کامیاب ہوگا؟ ایسے وقت جب ولولہ انگیز قیادت بنفس نفسی موجود تھی تو تب بھی احتجاج، ریلیاں، دھرنے سو فیصد ناکام رہے۔ کسی ذی شعور سے مجھے رہنمائی چاہیے کہ 24 نومبر کا احتجاج کیسے کامیاب ہوگا؟
حتمی نتیجہ اور پیشگوئی
میری ذاتی اطلاعات کے مطابق علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر خان نے عمران خان کو 2 ملاقاتوں میں زمینی حقائق سے آگاہ کر دیا ہے کہ بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ناکامی ثبت رہے گی۔ عمران خان کے سیاسی سفر کا خلاصہ، "دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں"۔ چند ماہ پہلے تک ادارے کے اندر سے مدد کا انتظار تھا اور آج کل صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کی تمام تدبیریں اور منصوبے الٹی پڑ چکے ہیں۔ اگر 24 نومبر کا احتجاج ملتوی نہیں ہوا تو ناکامی یقیناً ثبت ہو جائے گی۔