دہرے ٹیکس معاہدوں کی متوازن تشریح کی جائے: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ نے ٹیکس تنازع پر نظرثانی کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ دہرے ٹیکسوں کے معاہدوں کی اس طرح سے متوازن تشریح کی جائے جس سے معاشی نمو کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ٹیکس بیس کو بھی تحفظ حاصل ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی کپتان روہت شرما کے گھر شادی کے 9 سال بعد بچے کی پیدائش
ڈبل ٹیکسیشن کے معاہدے
فیصلے کے مطابق ڈبل ٹیکسیشن کے معاہدے بین الاقوامی اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔ ان کا مقصد مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع کو آسان بنانا اور دہرے ٹیکس سے بچنا ہے، جو عالمی تجارت میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ فیصلے میں جرمن ٹیکس ماہر کلاؤس واجل کا حوالہ دیا گیا جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ معاہدے قوموں کے درمیان پل کے طور پر کام کرتے ہیں، اور ان بین الاقوامی معاہدوں کا مقصد ٹیکس تنازعات کو روکنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تیز رفتار گاڑی کے نیچے آ کر شہید ہونے والے اہلکاروں سے متعلق رینجرز کا بیان سامنے آگیا
معاہدوں کی تشریح
ان معاہدوں کی سختی سے تشریح نہیں کی جانی چاہیے بلکہ ان سے عالمی سطح پر مساوی معاشی ترقی کے وسیع تر مقصد کی عکاسی ہونی چاہیے۔ 8 صفحات پر مشتمل نظرثانی فیصلہ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈز کیس؛ بشریٰ بی بی پیش ہوئیں نہ ملزمان نے جوابات جمع کرائے، سماعت ملتوی
عدالت کی کارروائی
عدالت نے جسٹس ریٹائرڈ قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کمپنی کی اپیلیں منظور کرلیں۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلے کی توثیق کی تھی، جبکہ اصل کیس میں جسٹس منصور شاہ کا اقلیتی فیصلہ تھا۔ اب نظرثانی کی درخواست جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ درخواست گزار ہالینڈ میں قائم کمپنی تھی، جو پاکستان میں نان ریذیڈنٹ شمار ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے گلیشیئرز کے پگھلنے سے پہاڑوں میں بسنے والی زندگیوں پر اثرات
کمپنی کے معاہدے
اس نے پاکستان میں کام کرنے والی کمپنی Schlumberger Seaco, Inc. کے ساتھ دو معاہدے کیے اور ہالینڈ اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے کنونشن کے آرٹیکل 7 کے تحت پاکستان میں کاروباری منافع کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ کا مطالبہ کیا۔ تاہم ٹیکس حکام نے آرٹیکل 12 کے تحت اس کاروباری منافع کو رائلٹی کی مد میں شمار کیا اور ان پر پندرہ فیصد کی شرح سے انکم ٹیکس عائد کیا۔
فیصلے کی تفصیلات
عدالت نے نوٹ کیا کہ اکثریتی فیصلے میں یہ بات طے کرنے میں ناکام رہی کہ آیا ہائی کورٹ کی طرف سے قانون کے سوالات کا صحیح طریقے سے جواب دیا گیا اور یہ منافع کس شق کے تحت رائلٹی کی تعریف میں آتا ہے۔ عدالت نے مدعا علیہ کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔