1963ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تمام امتحانات میں انگریزی کے ساتھ اردو زبان کے استعمال کی بھی اجازت دیدی گئی۔ اس طرح ہماری تحریک کامیاب ہوئی۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 54
لاہور کے تعلیمی منظر نامے کا جائزہ
اْس دور میں لاہور کے تمام تر کالجوں میں طلباء کی تعداد سات آٹھ ہزار تھی لہٰذا ہمیں 10 ہزار دستخط مکمل کروانے کے لئے گوجرانوالہ، فیصل آباد تک کے کالجوں میں طلباء کا تعاون حاصل کرنا پڑا۔ جہاں اردو ذریعہ تعلیم کمیٹیاں بنا کر مطلوبہ 10 ہزار دستخط حاصل کئے گئے۔
یوتھ موومنٹ اور طلباء کا تعاون
اس کام میں یوتھ موومنٹ کی برانچز سیالکوٹ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، قصور اور جڑانوالہ کے دوستوں کلیم احسن، چودھری محمد سلیم، ساجد محمود بٹ، چودھری محمد اکرام، شفیق فاروقی، رانا ظہور احمد، اظہار الحسن، اسلامیہ کالج لاہور کی سٹوڈنٹ یونین کے سیکرٹری حاجی نصراللہ خاں جیسے فرض شناس محب وطن دوستوں اور دیگر نے بھرپور حصہ لیا۔
دستخطوں کا خریطہ اور وائس چانسلر سے ملاقات
اس طرح 6 ماہ کی لگاتار کاوشوں کے بعد ہم اس قابل ہوئے کہ دسمبر 1963ء کے پہلے ہفتہ میں 10 ہزار دستخطوں کا خریطہ مکمل کر کے 10 رکنی طلباء کے ایک وفد کے ساتھ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے آفس ملحقہ سینٹ ہال لاہور میں جا کر پروفیسر حمید احمد خان کو پیش کیا۔ وائس چانسلر صاحب نے بڑی شفقت و محبت کا اظہار کیا اور اْردو ذریعہ تعلیم کے لئے دستخطی تحریک کی کامیابی میں طلباء کی خدمات کو سراہا اور خصوصاً راقم کی تنظیمی صلاحیتوں کی تعریف کی۔
پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کا اجلاس
دسمبر 1963ء کے آخری ہفتہ میں پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب یونیورسٹی کے تمام امتحانات میں انگریزی کے ساتھ اْردو زبان کے استعمال کی بھی اجازت دے دی گئی۔ الحمدللہ اس طرح ہماری یہ تحریک کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔
اردو زبان کی تحریک
گزشتہ 10 برسوں سے محترمہ فاطمہ قمر، عزیز ظفر آباد، صاحبزادہ انوار احمد بگوی، محمد جمیل بھٹی، حامد انوار اور ڈاکٹر پروفیسر شریف نظامی کی سربراہی میں قومی زبان اْردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لئے تحریک جاری و ساری ہے۔ راقم اور ہمارے احباب اس تحریک کا متحرک حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 ستمبر 2015ء میں اْس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ایک تاریخی فیصلہ دے کر اْردو زبان کی قومی زندگی کے تمام شعبہ جات میں استعمال کی راہیں کھول دیں ہیں۔
اردو زبان کی تحریک کا پس منظر
میری دلی خواہش ہے کہ جس کام کا بیڑہ بابائے اْردو مولوی عبدالحق نے تحریک پاکستان سے قبل اْٹھایا تھا، اس کے لئے جمیل الدین عالی اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسی علمی شخصیتوں نے خدمات انجام دیں، اور جس کی تائید فروری 1948ء میں پاکستان قانون ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی لیڈروں کی قرار داد کی روشنی میں قائداعظمؒ نے 1948ء میں اْردو زبان کی حمایت میں نعرہ حق بلند کیا تھا۔
خلاصہ
گزشتہ 150 سالوں کے دوران اْردو زبان سے محبت کرنے والے ہزاروں کارکنوں نے اپنی خدمات سرانجام دیں تاکہ دنیا کی تیسری بڑی زبان اْردو کو وطن عزیز کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں جاری وساری دیکھا جا سکے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔