اٹک خورد اسٹیشن کے ساتھ ہی نشیب میں دریائے سندھ زورو شور سے بہتا تھا، یہاں سے ریل کی پٹری کو پار کروانا یقینًا بہت دقت طلب مرحلہ تھا۔

تاریخی مختصر بیان
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 156
یہ بھی پڑھیں: رینجرز اور پولیس اہلکاروں پر حملے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا بیان بھی آ گیا
پٹری کا آغاز
پٹری بہر حال اٹک شہر سے کوئی 15 کلومیٹر آگے حاجی شاہ نامی قصبے تک پہنچا دی گئی تھی۔ آگے راستہ بند پا کر اسی کو آخری منزل قرار دے کر پشاور جانے والے مسافروں کو یہاں اتار دیا جاتا تھا۔ وہاں سے وہ کوئی 8 کلومیٹر کا مزید سفر طے کرکے دریا کے پاٹ پر پہنچتے تھے جہاں سے سردیوں میں وہ کشتیوں کے بنے ہوئے پل پر سے گزر کر یا گرمیوں میں کشتیوں میں بیٹھ کر دریا عبور کرکے دوسری طرف اتر جاتے تھے۔ یہ سفر کرنے کے بعد وہ کوئی دوسری سواری لے کر آگے پشاور کی طرف اپنا سفر جاری رکھتے تھے۔ پھر 1881 میں حاجی شاہ سے اٹک خورد تک لائن مکمل ہوئی تو اب مسافر عین دریا کے اوپر واقع اس اسٹیشن پر اترتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کبھی میں، کبھی تم کی آخری قسط: سرحد پار سے ہماری محبت فہد اور ہانیہ تک پہنچنے کی داستان
ایٹک خورد اسٹیشن کی حیثیت
پنجاب کی سرحد پر واقع اس اٹک خورد اسٹیشن کے بالکل ساتھ ہی تھوڑے نشیب میں دریائے سندھ بڑے زورو شور سے بہتا تھا۔ یہاں سے ریل کی پٹری کو پار کروانا یقیناً ایک بہت دقت طلب مرحلہ تھا۔ لہٰذا یہاں پہنچ کر پٹری بچھانے کا کام معطل ہو گیا۔ اس دوران راستے میں اسٹیشنوں اور ریلوے کی دیگر عمارات کی تعمیر جاری رہی۔ اسی لیے لاہور سے پشاور کی طرف آنے والی لائن، جو 1876ء میں ہی مکمل ہو گئی تھی، یہاں پر پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ پٹریوں کی تعمیر مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ 1883ء میں اٹک خورد کے مقام پر ایک اسٹیشن بھی بنا دیا گیا تھا۔ اب یہاں تک راولپنڈی سے ریل گاڑیوں کی آمد و رفت ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: فیض حمید سے مل کر کیا پلان بنایا گیا، کن شخصیات سے رابطہ کیا گیا۔۔؟ شہلا رضا نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا
دریا کے پار کی صورتحال
اگلے دو سال اسے آخری منزل جان کر مسافروں اور سامان کو یہیں اتار دیا جاتا تھا۔ جہاں سے وہ دریا پار کرکے دوسرے کنارے پر نکل جاتے تھے۔ دریا کے اس پار بھی سرحدی قصبے خیر آباد سے پشاور تک کوئی 80 کلومیٹر کے راستے میں پٹریاں بچھا دی گئی تھیں۔ اب ان دو بڑے شہروں کے بیچ بس اٹک کا یہی پل ہی رہ گیا تھا، جو ریل گاڑی کا راستہ روکے کھڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار سعودی عرب روانہ، او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کریں گے
اٹک پل کا تعارف
پل تو رکا ہوا ہے تو کیوں نہ ہم بھی یہاں دو گھڑی رک کر ریل گاڑی کے اس انوکھے سے پل کے بارے میں بھی کچھ جانیں۔ کیونکہ یہ بھی سکھر کے لینس ڈاؤن پل سے کچھ کم تعمیراتی عجوبہ نہیں تھا۔
دریائے سندھ کا ایک کنارا تو اٹک کی طرف ہے جب کہ دوسرا صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) میں ہے، جس کا پہلا قصبہ خیر آباد ہے۔ پہلے اس جگہ سے لوگ دریا کو کشتیوں کے ذریعے یا دوسرے روایتی طریقوں سے عبور کیا کرتے تھے۔ پھر حکومت نے 1860ء کی دہائی میں دریا پر کشتیوں سے بنا ہوا ایک عارضی پل بھی بنوا دیا جو عوام اور ان کی ہلکی پھلکی گھوڑا یا بیل گاڑیوں کو دریا عبور کروا دیتا تھا۔ یہ پل بنانے کے لیے درجنوں بڑی کشتیوں کو پہلو بہ پہلو کھڑا کرکے آپس میں باندھا جاتا اور پھر ان کے اوپر لکڑی کے مضبوط شہتیر اور تختے رکھ کر ایک راہگزر بنالی جاتی تھی۔
موسمی تبدیلیوں کا اثر
سردیوں میں تو یہ پل عبور کروانے کا ایک کامیاب طریقہ تھا کیونکہ دریا کے راستے میں اوپر پہاڑوں پر برف جمنے کی وجہ سے دریا کا بہاؤ قدرے کم ہو جاتا تھا۔ لہٰذا اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشتیوں کا یہ پل مناسب تھا، تاہم گرمیوں میں جب برف پگھلتی یا موسم برسات کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بہت تیز ہوجاتا تو کشتیوں کے اس پل کو وہاں سے ہٹا دیا جاتا تھا۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ عام لوگوں کی آمد و رفت کو محدود کر کے انتہائی ضروری سرکاری ڈاک اور مسافروں کو براہ راست بڑی کشتیوں پر سوار کراکے دریا پار کروایا جائے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔