نئی خوراک کا حساب لگاتے ہوئے کیا یہ صحت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟
نئے سال کا آغاز ہوتے ہی بہت سے لوگ نئے عزم کرتے ہیں اور زندگی میں کچھ مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر سال، یہ عزم سب سے زیادہ عام ہوتا ہے کہ وزن کم کرنا اور جسم کو بہتر شکل دینا ہے۔ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے اکثر ہم اپنی خوراک کی مقدار کو کم کرنے اور روزانہ ورزش کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز کی صورت میں ماپا جاتا ہے، اس لیے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی روزانہ کی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو وہ اپنے وزن میں کمی لا سکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ نقطہ نظر واقعی صحیح ہے؟ کیا ہمیں اس کے بارے میں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ کیلوری کے حساب کتاب کو پرانا طریقہ سمجھنا چاہیے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ صحت کے لیے خطرناک ہو۔
کیلوری کی اصل کیا ہے؟
کیلوری توانائی کی ایک اکائی ہے جو اکثر کھانے کی اشیاء کی غذائی قدر کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ لفظ لاطینی کے لفظ "کیلر" سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے گرمی۔ اس کا استعمال ایک صدی سے زیادہ ہو رہا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جائلز ییو نے بی بی سی کو بتایا کہ "نکولس کلیمنٹ نے کیلوری کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ سطح سمندر پر ایک لیٹر پانی کو ایک سینٹی گریڈ تک گرم کرنے کے لیے درکار حرارت کی مقدار ہے۔"
کلیمنٹ وہ پہلے فرانسیسی سائنسدان تھے جنہوں نے 19ویں صدی کے آغاز میں ہیٹ انجنوں پر لیکچرز دیتے ہوئے اس اصطلاح کا استعمال کیا۔ اس طرح آج کی لغت میں ایک کیلوری کی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک کلو پانی کے درجہ حرارت کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھانے کے لیے درکار توانائی ہے۔
کھانے کی اشیاء کی کیلوری کا معیاری حساب
کھانے کی اشیاء میں کیلوری کی مقدار کو صحیح طور پر ماپنے کی سائنسی صلاحیت ایک تاریخی لمحہ تھا، جس نے کئی چیزوں کو بدل دیا۔ بلومنگٹن کی انڈیانا یونیورسٹی میں تاریخ اور بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر نک کولاتھر کہتے ہیں، "ہم اچانک ایک ایسی دنیا سے دور ہو گئے جہاں کسی خاص شخص کی خوراک کا تعلق براہ راست ان کی نسل، آب و ہوا، سماجی طبقے اور جنس سے ہوتا تھا۔ اب ہم کھانے کی اشیاء کا موازنہ کرنے لگے۔"
اس تبدیلی نے کھانے کے بارے میں ہمارے مفروضات اور خیالات کو تبدیل کر دیا۔ لوگوں نے خوراک کو پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، مائیکرو نیوٹرینٹس، اور چکنائی کے مجموعے کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ کولاتھر کا کہنا ہے، "جسم کو اب ایک انجن کے طور پر دیکھا جانے لگا اور کھانے کو ایندھن کے طور پر سمجھا جانے لگا۔ اس طرح لوگوں کے کھانے کے حوالے سے نقطہ نظر میں تبدیلی آئی۔"
20 ویں صدی میں کیلوری کا اثر
20 ویں صدی میں کیلوری نے عوامی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ 1920 اور 1930 کی دہائیوں کے دوران، جاپانی بحریہ نے اپنے جہازرانوں کے لیے ایک غذائی معیار نافذ کیا، جسے انہوں نے یورپی معیارات کے مطابق لانے کے طور پر دیکھا۔ گندم، گوشت، خاص طور پر سور کا گوشت اور چکن کو بحریہ کے عملے کی خوراک میں شامل کیا گیا، جو جاپانی عوام میں بھی عام ہوا۔ آج ہم میں سے بہت سے لوگ جو جاپانی کھانا پسند کرتے ہیں، وہ اسی غذائی تبدیلی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔
کئی دہائیوں بعد، امریکہ نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے کیلوری کے حساب کتاب کا استعمال شروع کیا کہ خشک سالی کے شکار ممالک کو امدادی خوراک کس طرح فراہم کی جائے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، لیگ آف نیشنز نے غذائیت کا مطالعہ کیا اور 1935 میں عالمی سطح پر ایک معیاری درجہ بندی قائم کی، جس کے مطابق ایک بالغ کے لیے روزانہ 2500 کیلوریز درکار تھیں۔ آج، ایک مرد کے لیے 2500 کیلوریز اور عورت کے لیے 2000 کیلوریز یومیہ کا معیار بنایا گیا ہے۔
صحت کی مختلف پہلوؤں پر کیلوری کی اہمیت
جب ہم اپنی خوراک کی کیلوری کی مقدار کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ہماری صحت پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔ کیلوری کی مقدار کو کم کرنے سے وزن میں کمی تو آ سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ جسم کو ضروری غذائیت کی کمی ہو جائے۔ بعض اوقات، لوگ اپنی خوراک کو کم کرنے کے چکر میں ضروری وٹامنز اور معدنیات کو چھوڑ دیتے ہیں، جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
مزید یہ کہ، کچھ لوگ اس بات کا اندازہ نہیں لگا پاتے کہ انہیں کتنی کیلوریز کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، ورزش کرنے والے افراد کو زیادہ کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی توانائی کو برقرار رکھ سکیں۔ اس کے برعکس، کم فعال لوگ کم کیلوریز لے کر بھی صحت مند رہ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ افراد اپنی جسمانی ضروریات کے مطابق خوراک کو متوازن رکھیں۔
متوازن غذا کا کردار
اگرچہ کیلوری کی مقدار کا حساب لگانا ایک اہم عمل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی متوازن غذا کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایک اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اپنی کیلوری کی مقدار کو دیکھیں، بلکہ ان کیلوری کا ماخذ بھی اہم ہے۔ مثلاً، پھل، سبزیاں، مکمل اناج، اور صحت مند چکنائی، ہماری صحت کے لیے بہترین ہیں جبکہ چینی اور پروسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہر فرد کی خوراک کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔ ایک شخص کو جو کیلوریز درکار ہیں، وہ دوسرے کے لیے صحیح نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے ہر کسی کو اپنے جسم کے مطابق ایک صحت مند خوراک کا منصوبہ بنانا چاہیے۔
حقیقت اور افسانے کا فرق
کھانے کی مقدار اور کیلوریز کی گنتی کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کم کھانے سے ہی وزن کم کیا جا سکتا ہے، جبکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ دراصل، وزن کم کرنے کے لیے جسم کی مکمل توانائی کی ضرورت کو سمجھنا اور اسے اپنی زندگی کے انداز کے مطابق ترتیب دینا ضروری ہے۔
بہت سے لوگ مختلف ڈائٹس کی کوشش کرتے ہیں جو کیلوری کی مقدار کو کم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے بہت سے ڈائٹس صحت مند نہ ہوں یا کسی مخصوص ضرورت کو پورا نہ کر سکیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ایک ماہر غذائیت کی مدد سے اپنی خوراک کی منصوبہ بندی کی جائے۔
نتیجہ
آخر میں، کیلوری کی گنتی ایک اہم عمل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی متوازن خوراک، جسم کی ضروریات اور صحت کی عمومی حالت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگرچہ نئے سال کی شروعات پر وزن کم کرنے کا عزم ایک مثبت چیز ہو سکتی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی صحت مند رہنے کے لیے ایک مستقل اور متوازن زندگی گزارنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس طرح، ہم نہ صرف وزن کم کر سکتے ہیں بلکہ اپنی صحت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے صرف کیلوریز کی گنتی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ متوازن غذا کا انتخاب بھی اہم ہے۔ یہ ایک طویل مدتی عمل ہے جس کے لیے صبر اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے جسم کی سننا اور اس کی ضروریات کو سمجھنا ایک کامیاب صحت مند طرز زندگی کی بنیاد ہے۔