Health Tips

مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار شدہ کھانے کیا یہ واقعی مزیدار ہوتے ہیں

کیا ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ ترکیبیں واقعی انسانوں کی تخلیقی صلاحیت کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟ کیا مصنوعی ذہانت ریستوراں کے مالکان کے لیے ایسی جدید اور منفرد ڈشز تخلیق کر سکتی ہے جو لوگوں کو پسند آئیں، یا یہ صرف کاروبار کو نقصان پہنچانے والا تجربہ ہے؟ دبئی، امریکہ اور دیگر ممالک کے ریستورانوں نے مصنوعی ذہانت کے ساتھ تجربات کیے اور ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جدت کیسے کھانے کی دنیا میں انقلاب لا رہی ہے۔

کھانے کی صنعت میں نئی جدتوں کا تعارف ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ جہاں ایک طرف فیشن، ٹیکنالوجی اور دیگر صنعتیں نئی ایجادات کے ذریعے ترقی کر رہی ہیں، وہیں کھانے کی صنعت بھی مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے نئے اور منفرد تجربات کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تجربات واقعی کامیاب ہو رہے ہیں؟ اور کیا یہ کھانے کی دنیا میں تبدیلی لا رہے ہیں؟

مصنوعی ذہانت اور پیزا کی دنیا

دبئی کے مشہور ریستوراں ڈوڈو پیزا نے حال ہی میں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ پیزا ترکیب کا تجربہ کیا۔ ڈوڈو پیزا کے مینو ڈویلپمنٹ کے سربراہ سپارٹیک آرتیونیان نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ ایک منفرد پیزا تیار کیا جائے جو شہر کی مختلف ثقافتوں کو ملائے۔ دبئی کی بڑی آبادی میں مختلف ممالک سے آنے والے لوگ شامل ہیں، جن میں پاکستانی، بھارتی، فلپائنی، عرب اور یورپی شامل ہیں۔ اس متنوع آبادی کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے، آرتیونیان نے مشہور چیٹ بوٹ، چیٹ جی پی ٹی، سے ایک پیزا ترکیب تیار کرنے کا کہا جو ان ثقافتوں کی نمائندگی کرے۔

مصنوعی ذہانت نے حیرت انگیز طور پر ایک ترکیب تجویز کی جس میں عربی چکن شوارما، انڈین گرلڈ پنیر، جڑی بوٹیاں اور تاہنی ساس کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ترکیب آرتیونیان کے لیے ایک حیرت کا باعث تھی کیونکہ وہ بطور شیف ان اجزا کو ایک ساتھ استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ تاہم جب اس ترکیب کو آزمایا گیا تو لوگوں نے اسے بے حد پسند کیا اور یہ پیزا اتنی مقبولیت حاصل کر گیا کہ اب بھی مینو میں شامل ہے۔

کیا ہر ترکیب کامیاب ہوتی ہے؟

اگرچہ یہ پیزا تجربہ کامیاب رہا، لیکن مصنوعی ذہانت کے تمام ترکیبیں اتنی کامیاب نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر، کچھ ترکیبوں میں سٹرابیری، پاستا، بلیو بیری اور دلیہ جیسے اجزا شامل کیے گئے تھے جو کھانے کے روایتی اصولوں سے بالکل مختلف تھے۔ ایسے ترکیبیں ذائقہ کے لحاظ سے عجیب و غریب تھیں اور لوگ انہیں پسند نہیں کر سکے۔

مصنوعی ذہانت کی طرف سے تجویز کردہ کچھ اجزا ایسے تھے جن کا ایک ساتھ استعمال عجیب معلوم ہوتا تھا۔ ان میں سالن، ناریل ٹوفو اور انناس جیسی چیزیں شامل تھیں، جن کا مجموعہ ذائقہ کے لحاظ سے حیران کن تھا۔ تاہم، کچھ ترکیبیں جیسے جھینگے اور سٹیک ٹیکوز، کافی مقبول ہوئیں اور لوگوں میں پسند کی گئیں۔

امریکی تجربہ

امریکہ کے شہر ڈیلاس میں واقع ویلویٹ ٹیکو میں کھانے کی تیاری کی سربراہ وینسیا ولیس نے بھی مصنوعی ذہانت کے ساتھ تجربات کیے۔ ولیس نے چیٹ جی پی ٹی سے سپین کی مشہور ڈش ٹیکوز تیار کرنے کی درخواست کی۔ ولیس کا کہنا ہے کہ اے آئی نے ان کی توقعات سے ہٹ کر اجزا تجویز کیے، جن میں کچھ امتزاج بہت عجیب و غریب تھے۔

چیٹ جی پی ٹی نے صرف ایک ٹارٹیلا اور پروٹین کا انتخاب کیا، جبکہ ولیس کو آٹھ اجزا کی توقع تھی۔ کچھ امتزاج اس قدر عجیب تھے کہ ولیس کو یقین نہیں تھا کہ یہ ترکیبیں کامیاب ہوں گی یا نہیں۔ تاہم، تین تراکیب جو انہیں زیادہ بہتر لگیں، انہوں نے تیار کیں اور ان میں جھینگے اور سٹیک ٹیکو کو منتخب کیا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور لوگوں میں یہ ٹیکو بہت مقبول ہوئے۔ ایک ہفتے کے دوران 22,000 افراد نے ان کھانوں کا آرڈر دیا۔

مصنوعی ذہانت: ایک مددگار آلہ

ولیس کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت کھانے کی دنیا میں ایک مددگار آلہ ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب کوئی نیا کھانا تیار کرنے کا آئیڈیا نہ ہو۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف نئے خیالات فراہم کرتی ہے بلکہ کچھ ایسے اجزا کو یکجا کرنے کی تجویز بھی دیتی ہے جو پہلے کبھی ساتھ نہیں ملائے گئے۔ یہ آپ کے تخلیقی عمل کو دوبارہ متحرک کرتی ہے اور آپ کو مختلف ذائقوں کا امتزاج آزمانے کی ترغیب دیتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کی حدود

اگرچہ مصنوعی ذہانت کھانے کی تراکیب میں جدت لا سکتی ہے، لیکن اس پر مکمل انحصار ممکن نہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تجاویز میں ہمیشہ انسانی مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، لسانیات کی پروفیسر ایملی بینڈر کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس جادوئی طاقت نہیں رکھتے، بلکہ وہ آن لائن دستیاب معلومات اور ڈیٹا پر مبنی تجاویز دیتے ہیں۔

بینڈر کا کہنا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کو کھانے کے اجزا کی درجہ بندی اور امتزاج کے بارے میں صحیح سوالات پوچھے جائیں تو یہ مستقبل میں اور زیادہ نفیس ترکیبیں پیش کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے سوالات کو واضح اور تحقیق پر مبنی رکھیں تاکہ بہتر نتائج حاصل ہوں۔

مستقبل کا تصور

مصنوعی ذہانت کی مدد سے کھانے کی تراکیب تیار کرنا ابھی ایک نیا تصور ہے، لیکن اس میں بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ مستقبل میں، یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت خود بخود آپ کے فریج میں موجود اجزا کی بنیاد پر نئی تراکیب تیار کرے۔ سنگاپور کے سٹیفانو کینٹو نے ایک ایسی ایپ تیار کی ہے جو آپ کو گھر میں موجود اجزا کے حساب سے ترکیبیں تجویز کرتی ہے۔

انسانی مہارت کی اہمیت

تاہم، کھانے کی صنعت کے کچھ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مکمل طور پر مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنا درست نہیں۔ لندن کے کاک ٹیل ماہر جولین ڈی فیریل کا کہنا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت سے ذرا دور رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ عجیب و غریب اجزا تجویز کرتی ہے جن کا ایک ساتھ استعمال سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔

آرتیونیان، جو دبئی میں ڈوڈو پیزا کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ایک تفریحی آلہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، نہ کہ کسی ایسی چیز کے طور پر جس پر مکمل انحصار کیا جائے۔ اگرچہ مصنوعی ذہانت دلچسپ تراکیب فراہم کر سکتی ہے، لیکن انسانی تجربہ اور مہارت ہمیشہ ضروری ہوتی ہے۔

نتیجہ

مصنوعی ذہانت نے کھانے کی دنیا میں نیا اور دلچسپ تجربہ متعارف کرایا ہے، لیکن یہ انسانی تخلیقی صلاحیتوں کا مکمل متبادل نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک مددگار آلہ ہے جو نئے خیالات فراہم کر سکتا ہے، لیکن اس کے تجویز کردہ اجزا کو سمجھنا اور ان میں توازن پیدا کرنا ہمیشہ انسانوں کے ذمہ رہتا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...