“داؤد ابراہیم اور چھوٹا راجن کی دوستی سے شروع ہونے والی کہانی: ایک قاتلانہ جنگ کی طرف بڑھتا سفر”

یہ سنہ 2004 کی بات ہے جب چھوٹا راجن گینگ کے ایک اہم کارندے وکی ملہوترا نے انڈیا کی وسطیٰ ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور سے تعلق رکھنے والے شراب کے ایک تاجر کو بنکاک سے فون کیا اور اُن سے چار کروڑ روپے کا بھتہ طلب کیا۔

تاجر کو دھمکی دی گئی کہ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو انھیں اغوا کر لیا جائے گا جبکہ دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ تاجر نے فوری طور پر اندور پولیس کو اِس کی اطلاع دی۔ اندور پولیس نے دھکی دینے والے شخص کے فون نمبر کو ممبئی کرائم برانچ کے ساتھ شیئر کیا، جہاں اِس نمبر کی نگرانی کی جانے لگی۔

جب وکی ملہوترا سنہ 2005 میں انڈیا آئے تو ممبئی کے ایئرپورٹ پر اُترتے ہی انھوں نے وہ سِم دوبارہ استعمال کی جس سے تاجر کو ایک سال پہلے دھمکی دی گئی تھی اور بھتے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ممبئی پولیس چوکس ہو گئی اور جب وکی اگلی فلائٹ سے دہلی پہنچے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ چونکہ اُن کے خلاف تاجر کو دھمکی دینے کا مقدمہ اندور میں درج کیا گیا تھا اس لیے انھیں پوچھ گچھ کے لیے اندور لایا گیا۔

اس واقعے کی تمام تر تفصیلات مدھیہ پردیش کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے شیلندر سریواستو کی کتاب ’شیکل دی سٹارم‘ میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔

وکی ملہوترا کا نام شاہ رخ خان کے کردار کے نام پر رکھا گیا

وکی ملہوترا کا نام شاہ رخ خان کے کردار کے نام پر رکھا گیا

شیلیندر سریواستو کہتے ہیں کہ ’میں نے وکی کے ساتھ کوئی تھرڈ ڈگری طریقے کا استعمال نہیں کیا (یعنی دورانِ تفتیش اُن پر تشدد نہیں کیا گیا)۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے؟ انھوں نے کہا کہ وہ سبزی خور ہیں اور انھیں اڈلی پسند ہے۔ میں نے شراب کی پیشکش بھی کی لیکن اُس نے کہا کہ وہ شراب نہیں پیتے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے گھر والوں سے ملنا پسند کریں گے؟ جب اُس نے ہاں میں جواب دیا تو میں نے اُن کی اہلیہ اور بیٹے کو اُن سے ملنے کے لیے اندور بلایا۔‘

شیلیندر لکھتے ہیں کہ ’ایک دن میں وکی کے ساتھ صوفے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا جب وہ اچانک وہ جذباتی ہو گئے اور میرے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگے۔ اُس کے بعد انھوں نے اپنی مجرمانہ زندگی کی پرتوں اور اُن تمام کارروائیوں کی تفصیلات بتانا شروع کر دیں جن میں وہ شریک رہے تھے۔‘

وکی کا اصل نام وجے کمار یادو تھا۔ وہ مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے رہائشی تھے۔ بچپن میں وہ چھوٹے موٹے جرائم کرتے تھے اور بعدازاں وہ ممبئی آ گئے۔

شیلیندر سریواستو کا کہنا ہے کہ ’وکی نے مجھے بتایا تھا کہ ایک بار ممبئی میں جیولری کی دکان سے ہیرے چرانے کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شاہ رخ خان کی فلم ’بازیگر‘ دیکھنے گئے جس میں شاہ رخ کے کردار کا نام وکی ملہوترا تھا۔‘

’پھر اُن کے ساتھیوں نے اُن کا نام وجے کمار یادیو سے بدل کر وکی ملہوترا رکھ دیا۔ انڈر ورلڈ میں داخل ہونے کے بعد اُن کی ملاقات چھوٹا راجن سے ہوئی، جو ’نانا‘ کے نام سے مشہور تھے۔ آہستہ آہستہ وہ اُن کے دستِ راست بن گئے۔‘

چھوٹا راجن کا اصل نام راجیندر نکھلجے تھا۔ ابتدائی طور پر وہ سنیما کے ٹکٹ بلیک کیا کرتا تھا، اور جب پولیس نے ایک بار اسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے اُن کی لاٹھیاں چھین لیں اور انہیں مار پیٹا۔

چھوٹا راجن سنہ 1980 میں بڑا راجن گینگ کا رکن بن گیا۔ جب عبدل کنجو نے بڑا راجن کا قتل کیا تو راجیندر نکھلجے (چھوٹا راجن) نے اعلان کیا کہ بدلہ لیا جائے گا۔ کنجو کو مارنے کی اس کی تمام ابتدائی کوششیں ناکام رہیں، لیکن ان کارروائیوں نے داؤد ابراہیم کی توجہ چھوٹا راجن کی جانب مبذول کروا دی۔

ایس حسین زیدی اپنی کتاب ’ڈونگری ٹو دبئی: سکس ڈیکڈز آف دی ممبئی مافیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’داؤد کے گینگ میں شامل ہونے کے بعد چھوٹا راجن نے ایک کرکٹ میچ کے دوران کنجو کو قتل کیا۔ کنجو ایک میچ کھیل رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سفید پینٹ اور شرٹ پہنے نامعلوم افراد اس کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا، انھوں نے اس پر حملہ کر دیا۔‘

یہ بھی پڑھیں: اداکار گوہررشید نے اپنی زندگی میں کسی خاص لڑکی کا اعتراف کر لیا

داؤد گینگ کے پرانے اُرکان کا چھوٹا راجن سے حسد

داؤد گینگ کے پرانے اُرکان کا چھوٹا راجن سے حسد

چھوٹا راجن آہستہ آہستہ داؤد ابراہیم کے قریبی افراد میں شامل ہو گیا اور گینگ کا دماغ و طاقت بھی بن گیا، جس پر داؤد کا بھروسہ بڑھنے لگا۔

اس وقت ’ڈی کمپنی‘ (یعنی داؤد کمپنی) میں تقریباً پانچ ہزار افراد یا کارندے کام کر رہے تھے۔ چھوٹا راجن کی وجہ سے سادھو شیٹی، موہن کوٹیان، گرو ساٹم، روہت ورما اور بھرت نیپالی جیسے افراد بھی اس کے گینگ میں شامل ہوئے، لیکن آہستہ آہستہ داؤد گینگ کے پرانے لوگ راجن سے حسد کرنے لگے۔

حسین زیدی لکھتے ہیں کہ ’شرد شیٹی، چھوٹا شکیل اور سنیل ساونت کو چھوٹا راجن پسند نہیں تھا۔ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ راجن کی اجازت کے بغیر وہ ممبئی میں نہ تو کوئی قتل کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کاروباری سودا۔ ایک دن شراب کی پارٹی میں شرد شیٹی نے داؤد سے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب چھوٹا راجن بغاوت کر دے گا۔ داؤد کے قریبی حلقوں کی ان آرا کا اثر آہستہ آہستہ داؤد پر ہونے لگا اور چھوٹا راجن کو اہم فیصلوں سے دور رکھا جانے لگا۔‘

یہ بھی پڑھیں: Sodi Arabia ya Pakistan: Kaun Musalman Ummah ki Qiyaadat Karega? – Fazlur Rehman

چھوٹا راجن اور داؤد میں علیحدگی

چھوٹا راجن اور داؤد میں علیحدگی

سنہ 1992 میں ممبئی دھماکوں نے داؤد اور چھوٹا راجن کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا دیا۔ چھوٹا راجن اس بات پر حیران تھے کہ داؤد نے انھیں ممبئی حملوں سے پہلے ہونے والی میٹنگوں سے مکمل طور پر دور رکھا تھا، جبکہ چھوٹا شکیل ان میٹنگز میں باقاعدگی سے شرکت کر رہا تھا۔

سنہ 1993-94 تک دونوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ چکے تھے۔ اسی سال داؤد نے کروز لائنر پر اپنے قریبی لوگوں کو پارٹی دی۔

حسین زیدی لکھتے ہیں: ’پارٹی میں جانے سے پہلے راجن کو ایک فون آیا، جسے سنتے ہی اُن کا چہرہ سفید ہو گیا۔ فون کرنے والے نے بتایا کہ اس پارٹی میں انھیں مارنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چھوٹا راجن نے ابوظہبی میں انڈین سفارتخانے سے رابطہ کیا اور دبئی سے باہر نکلنے میں مدد طلب کی، بدلے میں انھوں نے داؤد کے بارے میں تمام معلومات دینے کی پیشکش کی۔‘

’آخرکار، انڈین سفارتخانے نے چھوٹا راجن کے دبئی سے فرار ہونے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند گھنٹوں کے اندر، انھیں دوسرے نام سے کھٹمنڈو اور وہاں سے ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد سے چھوٹا راجن کا ’صرف ایک مقصد تھا اور وہ مقصد داؤد ابراہیم اور ان کی کاروباری سلطنت کو ختم کرنا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیں: India’s ₹25 Toilet Tax Sparks Outrage

چھوٹا راجن پر داؤد کے حواریوں کا حملہ

چھوٹا راجن پر داؤد کے حواریوں کا حملہ

اس کے بعد چھوٹا راجن نے بنکاک میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران داؤد اور اُن کے ساتھی چھوٹا راجن کی رہائش کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایک دن چھوٹا شکیل کے کہنے پر منا جھینگڑا اور اُن کے ساتھیوں نے چھوٹا راجن پر اُن کے بنکاک والے اپارٹمنٹ میں حملہ کر دیا۔ انھوں نے پہلے چھوٹا راجن کے نگراں روہت ورما کو گولی ماری اور پھر اُن کی اہلیہ سنگیتا، بیٹی اور ملازمہ کو زخمی کر دیا۔

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں کہ ’چھوٹا راجن اپنے فلیٹ کے بیڈ روم میں چھپا ہوا تھا جسے اس نے اندر سے بند کر دیا، انھوں نے بیڈ روم کے بند دروازے پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ چھوٹا راجن کھڑکی سے نیچے کود گیا۔ وکی ملہوترا کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے پولیس کو بلایا۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو انھوں نے اسے فلیٹ کے پیچھے ایک درخت کی شاخ سے لٹکا ہوا پایا۔ وہاں سے اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں وکی سائے کی طرح اس کے ساتھ رہا۔‘

یہ بھی پڑھیں: سموگ کے باعث پارکس، تفریح گاہیں، عجائب گھر 10روز کیلئے بند

برتھ ڈے کیک کے بہانے گھر میں داخل

برتھ ڈے کیک کے بہانے گھر میں داخل

حسین زیدی نے اپنی کتاب میں اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کی ہے۔

زیدی لکھتے ہیں: ’کالے سوٹ پہنے چار تھائی باشندے چھوٹا راجن کے گھر کے گیٹ پر پہنچے۔ وہ اپنے ساتھ سالگرہ کا ایک بڑا کیک لائے تھے۔ انھوں نے گارڈز سے کہا آج راجن کے ساتھی مائیکل ڈی سوزا کی بیٹی کی سالگرہ ہے۔ اسی لیے ان کے ہندوستانی دوستوں نے انھیں یہ کیک بھیجا ہے تاکہ انھیں سرپرائز دیا جائے۔ گارڈز سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ انھوں نے 200 ڈالر کا نوٹ گارڈ کے حوالے کر دیا۔ گارڈ نے گیٹ کھولا اور چاروں لوگ اپنی گاڑی گھر کے اندر لے آئے۔‘

’جب گارڈز گیٹ بند کرنے ہی والے تھے کہ اچانک چار انڈین نمودار ہوئے اور اُس پر جھپٹ پڑے۔ انھوں نے اسے باندھ دیا۔ داؤد کے کارندوں نے راجن اور ورما کے پہلی منزل کے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔‘

زیدی مزید لکھتے ہیں کہ ’نگران ورما دروازے پر ان لوگوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ راجن کو خبردار کر پاتے، انھوں نے اسے مار ڈالا۔ راجن کو کہیں نہ ملنے پر انھوں نے بیڈ روم کے بند دروازے پر فائرنگ کر دی۔ ایک گولی دروازے کو چھید کر چھوٹا راجن کے پیٹ میں لگی۔ خون آلود راجن کھڑکی سے نیچے کود گیا اور گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ سارا واقعہ پانچ منٹ میں ختم ہو گیا۔‘

چھوٹا راجن کو وجے دمن کے فرضی نام سے ہسپتال میں رکھا گیا تھا لیکن پھر بھی یہ افواہیں پھیلنے لگیں کہ وہ بنکاک میں مارا گیا ہے۔

جلد ہی انڈین ایجنسیوں کو اطلاع ملی کہ چھوٹا راجن بنکاک میں زیر علاج ہیں۔ انھوں نے راجن کی حوالگی کی کوشش شروع کر دی اور سی بی آئی کی ایک ٹیم تھائی لینڈ جانے کی تیاری کرنے لگی۔

اسی دوران وکی ملہوترا نے وہاں موجود عملے کو سمجھانا شروع کر دیا کہ وہ چھوٹا راجن کو ہسپتال سے نکال لیں۔

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں کہ ’اِسی دوران، وکی انڈیا آئے اور یہاں سے چھوٹا راجن کا مجسمہ بنا کر ایک بڑے سوٹ کیس میں بنکاک لے گئے۔ وکی نے مجھے بتایا کہ وہ اس دوران دو بار انڈیا آئے۔ پہلی بار وہ راجن کے مجسمے کے اوپری حصے کے ساتھ بنکاک گئے اور دوسری بار نیچے والے حصے کے ساتھ بنکاک پہنچے۔ انھوں نے ایک بڑی رسی بھی خریدی۔ پھر مجسمے کے دونوں حصوں کو جوڑا اور اسے چادر سے ڈھانپ کر چھوٹا راجن کے بستر پر لٹا دیا۔ راجن رسی کی مدد سے کھڑکی سے نیچے آئے۔ اور سی بی آئی کی ٹیم کو خالی ہاتھ ہندوستان لوٹنا پڑا۔‘

یہ بھی پڑھیں: ہانیہ عامر کی انٹری دلجیت دوسانجھ کے کنسرٹ میں، نئی ویڈیو سامنے آگئی

داؤد پر قبرستان میں حملہ کرنے کا منصوبہ

داؤد پر قبرستان میں حملہ کرنے کا منصوبہ

چھوٹا راجن نے بھی داؤد کے خلاف جوابی کارروائی کا منصوبہ بنایا۔ داؤد کی بیٹی کی وفات ہوئی تو اُس کے جنازے کے دوران داؤد کو مارنے کی کوشش کی گئی۔ اس مشن کے لیے وکی نیپالی پاسپورٹ پر کھٹمنڈو سے کراچی پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ داؤد کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ کراچی منتقل ہو گئے تھے تاہم پاکستانی حکام ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں: ’وکی نے کراچی میں ہی ایک اسلحے کے اسمگلر سے دو AK-47 رائفلیں خریدیں۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جب داؤد اپنی بیٹی کو دفنانے کے لیے قبرستان آئیں گے تو ان پر حملہ کیا جائے گا۔ لیکن اسلحہ سمگلر کو پکڑ لیا گیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس نے دو اے کے-47 رائفلیں دو نیپالی لڑکوں کو فروخت کی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’اس کے نتیجے میں، داؤد چوکنا ہو گئے اور قبرستان نہیں گئے، جب وکی اور ان کے ساتھی قبرستان پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ پورے علاقے کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور داؤد کا کوئی سراغ نہیں۔ انھوں نے اپنی رائفل وہیں پھینک دیں۔‘

داؤد کو مارنے کی اگلی کوشش کے بارے میں شیلیندر سریواستو کہتے ہیں کہ ’اس بار وکی اور اس کا ساتھی بنگلہ دیشی پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے نیپال پہنچے۔ وہاں سے دونوں کراچی پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے دو اے کے-47 رائفلیں اور دو پستول خریدے۔ انھوں نے دو ایل ای ڈی ٹی وی سیٹ بھی خریدے اور ان سیٹوں کے اندر اپنا اسلحہ چھپا دیا۔ وہاں وکی نے 60 کروڑ روپے کی ایک کشتی خریدی اور سمندر کے راستے دبئی روانہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ٹی وی سیٹ بھی تھے جن میں رائفلیں اور پستول رکھے گئے تھے۔ انھوں نے انڈیا کلب کے سامنے 56 منزلہ عمارت میں ایک فلیٹ کرائے پر لیا۔‘

وکی اور اس کے ساتھی داؤد کے انتظار میں اس فلیٹ میں رہنے لگے۔ لیکن داؤد کئی مہینوں تک انڈیا کلب نہیں آئے۔ اسی دوران دبئی پولیس کو وکی اور اس کے ساتھی پر شک ہو گیا۔ انھوں نے فلیٹ کی تلاشی لی لیکن کوئی مجرمانہ سامان نہیں ملا۔

سریواستو لکھتے ہیں: ’اس کے بعد وکی کو احساس ہوا کہ وہ دبئی پولیس اور داؤد کے ریڈار میں آ گئے ہیں۔ ایک دن انھوں نے ٹی وی سیٹس سے ہتھیار نکالے اور انڈیا کلب پر حملہ کر دیا۔ وہاں انھوں نے 19 جنوری 2003 کو داؤد کے ساتھی شرد شیٹی، جسے ’ڈینی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، مار ڈالا۔‘

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں کہ ’وکی نے بتایا کہ داؤد نے اب تک کم از کم 13 عرفی نام استعمال کیے ہیں۔ اُن کے پاس کئی ممالک کے پاسپورٹ ہیں، ان کے گھروالوں میں اُن کی اہلیہ ماہ جبین شیخ، بیٹا معین نواز اور دو بیٹیاں ماہ رخ اور مہرین ہیں۔

’ان کی تیسری بیٹی ماریہ کا انتقال 1998 میں ہوا۔ ماہ رخ کی شادی کرکٹر جاوید میانداد کے بیٹے جنید سے ہوئی جبکہ ان کی دوسری بیٹی مہرین کی شادی پاکستانی نژاد امریکی شخص ایوب سے ہوئی۔‘

چھوٹا راجن اور تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا

انٹرپول نے بعد میں چھوٹا راجن کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا۔ سنہ 2015 میں، انڈونیشیا کی پولیس نے انہیں بالی میں پکڑا اور بعد میں بھارت کے حوالے کیا جہاں وہ ابھی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

ان پر 70 جرائم کے الزامات ہیں اور سنہ 2018 میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ حال ہی میں، سنہ 2024 میں انہیں ایک اور کیس میں بھی عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔

شیلیندر سریواستو نے لکھا کہ ’2005 میں وہ داؤد ابراہیم کو قتل کرنے کی ایک کوشش میں تھے، لیکن انہیں اور ان کے ساتھی فرید تناشا کو دہلی میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری انٹیلیجنس بیورو اور ممبئی کرائم برانچ کے درمیان کشمکش کی وجہ سے ہوئی۔‘

میرا بورونکر، جو کہ پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہو چکی ہیں، اپنی سوانح عمری ’میڈم کمشنر‘ میں بتاتی ہیں کہ ’جب وکی کو گرفتار کیا گیا، انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے وکی کو آزاد کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن میں نے انکار کر دیا۔‘

سریواستو نے کہا کہ ’وکی کو گرفتار کر کے دہلی سے ممبئی لایا گیا تھا۔ سنہ 2010 میں ضمانت پر رہائی کے بعد وہ فرار ہو گیا، اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت جنوبی افریقہ میں ہے، جہاں وہ چھوٹا راجن کے کاروبار، جن میں ہیروں کی سمگلنگ بھی شامل ہے، کی نگرانی کر رہا ہے۔‘

Tags:

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...