ایئرفورس کے زیر زمین مرکز سے حملوں کی کمانڈ: ایران پر اسرائیلی حملوں کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
اسرائیلی فضائیہ کے طیاروں نے جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب ایران میں موجود عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کے ذریعے ایران نے اسرائیل پر حال ہی میں کیے گئے میزائل حملوں کی قیمت ادا کی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق ’یہ ایک واضح پیغام ہے کہ جو لوگ اسرائیلی ریاست کے لیے خطرہ بنیں گے انھیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘
Uses in Urdu نے اس تفصیلی رپورٹ میں ان حملوں سے متعلق چند اہم سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیل کے حملے کا آغاز کب ہوا؟
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب مقامی وقت کے مطابق دو بج پر 15 منٹ پر دھماکوں سے ’مِلتی جُلتی‘ آوازیں سُنی گئی تھیں۔
ابتدائی طور پر ایران نے اسرائیلی حملوں کی تصدیق نہیں کی تاہم ایران میں سوشل میڈیا پر صارفین اِن دھماکوں سے متعلق آگاہ کرتے رہے۔
ایک صارف نے Uses in Urdu کو بتایا کہ انھوں نے جنوبی تہران میں امام خمینی ایئرپورٹ کے قریب دھماکوں کی آوازیں سُنی ہیں۔
ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ’تہران کے لوگ رات 2 بج کر 14 منٹ پر (پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق رات تین بج کر 45 منٹ پر) یکے بعد دیگرے تین دھماکوں کی خوفناک آواز سُن کر بیدار ہوئے‘ جبکہ تہران میں موجود ایک اور شخص نے لکھا کہ ’ہم نے سات خوفناک دھماکوں کی آوازیں سُنی ہیں۔‘
دھماکوں کی یہ ابتدائی آوازیں سُنائی دیے جانے کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس کے ذریعے آگاہ کیا کہ ’اسرائیل کے خلاف ایرانی حکومت کے مہینوں سے جاری حملوں کے جواب میں اِس وقت اسرائیلی کی دفاعی افواج ایران میں عسکری اہداف پر حملے کر رہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: چاہت فتح علی خان کا گانا سن کر مجسمہ بنا گولڈن مین بھی حرکت کرنے پر مجبور ہو گیا
ایران میں کن مقامات اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا؟
ایران پر کیے گئے حملوں کا دورانیہ لگ بھگ چار گھنٹوں پر محیط تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی دفاعی افواج نے انٹیلیجنس کی بنیاد پر سنیچر کے روز ایران پر فضائی حملے کیے اور اس کے طیاروں نے میزائل بنانے والے ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج نے مزید کہا کہ جن میزائل تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا وہاں وہ میزائل بنائے جاتے تھے جو ایران نے حالیہ مہینوں میں اسرائیل پر داغے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں اور اضافی ایرانی فضائی صلاحیتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب ایران نے اپنے ’اڈوں‘ پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کی تصدیق تو کی ہے تاہم اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
ایران کی دفاعی افواج نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تہران، خوزستان اور ایلام میں فوجی اڈوں پر حملے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے مزید کہا کہ اسرائیل نے ایران میں نشانہ بنائی گئی تنصیبات کا چناؤ ’بہت سے دستیاب اہداف‘ میں سے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ضرورت پڑنے پر مزید اہداف کا چناؤ کر کے ان پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
اس سے زیادہ تفصیلات نہ تو فی الحال اسرائیل نے شیئر کی ہیں اور نہ ہی ایران نے۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی ودیگر سیاسی رہنماؤں کو لانگ مارچ توڑ پھوڑ کے ایک اور کیس میں ریلیف مل گیا
ان حملوں میں کتنا نقصان ہوا؟
اگرچہ ایران نے اسرائیلی حملوں کی تصدیق کی ہے لیکن ابتدائی طور پر ریاستی میڈیا نے اِن حملوں کو ’ناکام‘ قرار دیتے ہوئے اس کے نتیجے میں ہونے والے کسی بھی نقصان سے متعلق خبروں کی تردید کی۔
ایران کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تہران، خوزستان اور ایلام میں فوجی اڈوں پر حملے ہوئے ہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق دھماکوں کی ابتدائی آوازوں کے بعد ایران کا دفاعی میزائل شکن نظام فعال بنا دیا گیا تھا جس نے کامیابی کے ساتھ اسرائیلی حملوں کو ناکام بنایا تاہم بعد ازاں ایرانی فوج نے کہا کہ ’اسرائیلی حملوں کو کامیابی کے ساتھ روکا گیا تاہم چند مقامات پر ’محدود نقصان‘ ہوا۔‘
ایران کی جانب سے اس ’محدود نقصان‘ کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
Uses in Urdu کے نمائندے بہمان کلباسی کا کہنا ہے کہ فی الوقت ایران کا ریاستی میڈیا ان حملوں کو ناکام قرار دے رہا ہے اور کسی بھی نقصان کی تردید کر رہا ہے۔
کلباسی کے مطابق ’ایران اور اس سے متعلقہ اہداف پر کسی بھی حملے کے بعد ایران کا عمومی ردعمل ایسا ہی ہوتا ہے۔‘
کلباسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ایرانی ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران اب یہ معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ تاہم کلباسی کے مطابق اگر آگے چل کر ایران میں ہلاکتوں اور عسکری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کے ثبوت سامنے آ جاتے ہیں تو ایران کی یہ سٹریٹجی متاثر ہو سکتی ہے۔
ایران کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟
مشرقِ وسطیٰ میں Uses in Urdu کے علاقائی مدیر سبیچیئن اشعر کا کہنا ہے کہ ان حملوں پر ایرانی ردعمل کا انحصار ایرانی قیادت پر ہے کہ وہ کس طرح اس کا جواب دینا چاہے گی۔
ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ادارے ’تسنیم‘ نے کہا کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کو مناسب ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم اب تک ایران کے رہبر اعلیٰ اور سرکاری حکام نے اس ضمن میں کوئی بیان نہیں دیا جبکہ امریکہ نے ایران کو ممکنہ ردعمل کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔
اس تمام تر صورتحال پر Uses in Urdu کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا تجزیہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
خطے میں ہر کوئی جانتا تھا کہ اسرائیل کا جواب آنے والا ہے لیکن کم از کم کچھ ممالک کو یہ توقع تھی کہ اسرائیل امریکی صدارتی انتخابات کے بعد تک انتظار کرے گا۔
امریکہ کے خلیجی عرب اتحادیوں کے پاس گھبرانے کی اب بہت سے وجوہات ہیں، خاص طور پر آج صبح جب وہ اس انتظار میں ہیں کہ ایران کس طرح اسرائیل کو جواب دیتا ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایران پر ہونے والے اس حملے میں ملوث نہیں تھا لیکن اپنے تھاڈ ایئر ڈیفنس سسٹم کو چلانے کے لیے اسرائیل میں تقریبا 100 فوجی اہلکاروں کو تعینات کرنے کے بعد امریکہ اب کسی بھی ممکنہ ایرانی جوابی کارروائی کے خلاف اسرائیل کے دفاع میں مدد کرنے میں شامل ہو سکتا ہے۔
دریں اثنا خلیجی عرب حکومتیں جو اس تنازعے سے دور رہنے کی خواہاں ہیں، انھوں نے حال ہی میں ایران سے کہا ہے کہ وہ اپنے ممالک کو ایران پر اسرائیلی حملوں میں استعمال نہیں ہونے دیں گے۔