گوگل پر دو بلین پاؤنڈ کا جرمانہ لگوانے والا جوڑا: ’ہمیں انٹرنیٹ سے غائب کر دیا گیا‘
’گوگل نے ہمیں انٹرنیٹ سے غائب ہی کر دیا تھا۔‘
کسی بھی نئے کاروبار کے آغاز کے ابتدائی دن خوشی اور تناؤ دونوں کا باعث بنتے ہیں۔ مگر یہ کیفیت کسی کے لیے بھی اتنی خوفناک نہیں ہو گی جتنی کہ شیون رف اور ان کے شوہر ایڈم کے لیے تھی۔
یہ جون 2006 کی بات ہے جب اس جوڑے نے اپنی اچھی تنخواہوں والی نوکریاں چھوڑ کر مختلف اشیا (الیکٹرانکس سے لے کر جہاز کے ٹکٹ تک) کی قیمتوں کا موازنہ کرنے والی ویب سائٹ ’فاؤنڈیم‘ شروع کی جو مکمل طور پر لائیو ہو چکی تھی (یعنی لانچ ہو چکی تھی)۔
مگر ان کو اور ان کے فالوورز کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ ان کی کمپنی کے خاتمے کی ابتدا ہو گی۔
سرچ انجن کے آٹومیٹک سپیم فلٹر کی ایک نشاندہی کے باعث اس ویب سائٹ پر گوگل سرچ پینلٹی (جرمانہ) عائد ہوا، جس کی وجہ سے قیمتوں کے موازنے جیسے سوالات کے جواب میں یہ ویب سائٹ نظر نہیں آتی تھی کیونکہ سرچ انجن نے اسے فہرست میں بہت نیچے پھینک دیا تھا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ جب گاہک دوسری ویب سائٹس کے ذریعے ان کی پروڈکٹ کی فہرست سے کسی پر کلک کرتے تو اس سے اس جوڑے کو کوئی آمدن نہیں ہو رہی تھی۔
ایڈم کہتے ہیں ’ہم اپنی ویب سائٹ اور گوگل میں اس کی درجہ بندی پر نظر رکھے ہوئے تھے اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہم نے اسے گرتے دیکھا۔‘
اگرچہ فاؤنڈیم کا آغاز ویسا نہیں ہوا جیسا ہونا چاہیے تھا مگر کہتے ہیں نا کہ خدا کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہاں سے اس 15 سالہ قانونی جنگ کا آغاز ہوا جس کے بعد گوگل پر 2.4 بلین یورو (دو بلین پاؤنڈ) جرمانہ ہوا۔
بڑی کمپنیوں کے عالمی ضابطے کے حوالے سے اس کیس کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا گیا ہے۔
گوگل نے جون 2017 میں آنے والے اس فیصلے کے خلاف سات سال لڑائی جاری رکھی، لیکن اس سال ستمبر میں یورپ کی اعلیٰ ترین عدالت یورپین کورٹ آف جسٹس نے اس کی اپیلیں مسترد کر دیں۔
اس فیصلے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں ریڈیو فور پر ’دی باٹم لائن‘ سے بات کرتے ہوئے شیون اور ایڈم نے بتایا کہ پہلے تو انہیں لگا کہ سرچ انجن میں ان کی ویب سائٹ کی تنزلی شاید صرف ایک غلطی ہو گی اور جلد ہی یہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
58 سالہ ایڈم کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کو کوئی ٹریفک نہیں مل رہی تو آپ کا کاروبار ڈوب جائے گا۔‘
اس جوڑے نے گوگل کو پابندی ہٹانے کے لیے متعدد درخواستیں بھیجیں لیکن دو سال سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی کچھ بھی نہیں بدلا اور انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔
اس دوران دوسرے سرچ انجنوں میں ان کی ویب سائٹ کی درجہ بندی بالکل نارمل تھی لیکن اس سے فرق نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ شیون کے مطابق ’سب لوگ تو گوگل استعمال کرتے ہیں۔‘
بعد میں اس جوڑے کو پتا چلا کہ گوگل نے صرف ان کی سائٹ کو ہی نقصان پہنچایا تھا۔ سنہ 2017 میں جب گوگل پر جرمانہ کیا گیا اس وقت تک 20 اور کمپنیاں سامنے آئیں جنھیں نقصان پہنچا تھا ان میں کیکلو، ٹریویگو اور یلپ بھی شامل ہیں۔
ایڈم نے سپر کمپیوٹنگ میں اپنا کیریئر بنایا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ پچھلی نوکری پر ایک دن سگریٹ پیتے ہوئے انھیں فاؤنڈیم بنانے کا خیال آیا۔
اس وقت قیمتوں کا موازنہ کرنے والی ویب سائٹیں اپنے ابتدائی دور میں تھیں اور ہر ایک کسی ایک خاص پروڈکٹ پر کام کر رہی تھی۔ لیکن فاؤنڈیم مختلف تھی کیونکہ اس نے صارفین کو مصنوعات کی ایک بڑی رینج کا موازنہ کرنے کا اختیار دیا جن میں کپڑوں سے لے کر جہاز کے ٹکٹ تک شامل تھے۔
شیون خود کئی بڑے عالمی برانڈز کے سافٹ ویئر کنسلٹنٹ رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رینج کے حوالے سے ان کی ویب سائٹ بہت بڑی تھی۔
اپنے 2017 کے فیصلے میں یوروپی کمیشن نے لکھا کہ گوگل نے غیر قانونی طور پر سرچ کے نتائج میں اپنی خود کی موازنہ کرنے والی شاپنگ سروس کو فروغ دیا اور حریفوں کی درجہ بندی کم کر دی۔
ایڈم کا کہنا ہے جب دس سال پہلے انھوں نے فاؤنڈیم لانچ کیا گیا اس وقت ان کے پاس یہ فرض کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ آن لائن شاپنگ میں گوگل بھی ایک حریف ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اسے ’ایک سنجیدہ کھلاڑی نہیں سمجھتے تھے۔‘
لیکن 2008 کے آخر تک اس جوڑے کو شبہ ہونے لگا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔
کرسمس سے تین ہفتے پہلے اس جوڑے کو پیغام موصول ہوا کہ ان کی ویب سائٹ اچانک لوڈ ہونے میں سست ہو گئی ہے۔ انھوں نے سوچا شاید یہ ایک سائبر حملہ ہو مگر ہنستے ہوئے ایڈم بتاتے ہیں کہ ’اصل میں یہ ہوا کہ سب نے ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔‘
چینل 5 کے ’دی گیجٹ شو‘ نے حال ہی میں فاؤنڈیم کو برطانیہ میں قیمتوں کے موازنے کی بہترین ویب سائٹ قرار دیا تھا۔
شیون کہتے ہیں کہ یہ بہت اہم تھا کیونکہ پھر ہم نے گوگل سے رابطہ کیا اور کہا ’دیکھیں آپ کے صارفین کو فائدہ نہیں ہو رہا، آپ نے ان کے لیے ہمیں ڈھونڈنا ناممکن کر دیا ہے۔‘
اس وقت بھی انھیں گوگل سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا۔ ایڈم کے مطابق یہی وہ لمحہ تھا جب انھوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔
اس جوڑے نے سب کچھ اخبارات کے سامنے رکھا اور اپنا کیس برطانیہ، امریکہ اور برسلز کے ریگولیٹرز کے پاس بھی لے کر گیا۔
بالآخر نومبر 2010 میں یورپی کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا اور ریگولیٹرز کے ساتھ اس جوڑے کی پہلی ملاقات برسلز کے ایک چھوٹے سے کیبن میں ہوئی۔
شیون یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ 'اگر یہ گوگل کے نظام کا مسئلہ ہے تو آپ وہ پہلے لوگ کیوں ہیں جو شکایت لے کر آئے ہیں؟'
'ہم نے کہا کہ ہمیں سو فیصد یقین نہیں ہے لیکن ہمیں شبہ ہے کہ لوگ سامنے آنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انٹرنیٹ پر کاروبار کے لیے لوگ سب سے زیادہ گوگل پر انحصار کرتے ہیں جو ان تک ٹریفک لاتا ہے۔'
’ہمیں دھونس جمانے والے پسند نہیں‘
یہ جوڑا برسلز میں کمیشن کی عمارت سے صرف چند سو گز کے فاصلے پر ایک ہوٹل کے کمرے میں تھا جب کمشنر مارگریٹ ویسٹیگر نے آخر کار اس فیصلے کا اعلان کیا جس کا وہ اور دیگر شاپنگ ویب سائٹس انتظار کر رہی تھیں۔
لیکن اس وقت انھوں نے خوشی میں پارٹی کرنا نہیں شروع کر دی کیونکہ ان کی توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر تھی کہ یورپی کمیشن اپنے فیصلے کو نافذ کرے۔
شیون کہتے ہیں کہ 'یہ گوگل کی بدقسمتی تھی کہ انھوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیا۔ ہم دونوں کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہے کہ ہمیں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کچھ کرنا ہے اور ہمیں دھونس جمانے والے بالکل پسند نہیں۔'
مگر گذشتہ مہینے گوگل کی اپیلیں مسترد ہونا بھی اس معاملے کا اختتام ثابت نہیں ہوا۔
اس جوڑے کا خیال ہے کہ گوگل کا طرز عمل اب بھی مخالفین کے کاروبار کو دبانے جیسا ہے اور ای سی اس پر غور کر رہا ہے۔ اس سال مارچ میں نئے ڈیجیٹل مارکیٹس ایکٹ کے تحت اس کمیشن نے گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا ہے کہ آیا وہ سرچ کے نتائج میں اپنے سامان اور سروسز کو ترجیح دیتی ہے یا نہیں۔
گوگل کے ایک ترجمان نے کہا: 'یورپی کورٹ آف جسٹس کا 2024 کا فیصلہ صرف اس چیز سے متعلق ہے کہ ہم نے 2008-2017 تک پروڈکٹس کی سرچ کیسے دکھائی۔'
ان کا کہنا ہے کہ شاپنگ کے حوالے سے یورپی کمیشن کے فیصلے کی تعمیل کرنے کے لیے ’ہم نے 2017 میں جو تبدیلیاں کیں وہ سات سال سے زیادہ عرصے تک کامیابی کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں اور ان سے 800 سے زیادہ موازنہ کرنے والی شاپنگ سروسز کے لیے اربوں کلکس جینریٹ ہوئی ہیں۔‘
’اسی وجہ سے ہم فاؤنڈیم کے دعووں کا سختی سے مقابلہ کر رہے ہیں اور جب یہ معاملہ دوبارہ عدالتوں کے زیرِ غور آئے گا تو ہم دوبارہ بھی ایسا کریں گے۔‘
یہ جوڑا گوگل کے خلاف ہرجانے کے دعوے کی بھی پیروی کر رہا ہے جس پر سماعت کا آغاز 2026 میں ہو گا۔ لیکن جب بھی، اور اگر اس جوڑے کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یقیناً یہ بہت شاندار ہو گی کیونکہ 2016 میں حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے انھیں اپنی ویب سائٹ بند کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
گوگل کے خلاف طویل لڑائی ان کے لیے آسان نہیں رہی ہے۔
ایڈم تسلیم کرتے ہیں کہ ’اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ اتنی لمبی چلے گی تو شاید ہم اسے لڑنے کا فیصلہ نہ کرتے۔‘