پلیٹ فارم ٹکٹ کی بھی عجب داستان ہے

مصنف کی تفصیلات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 100
یہ بھی پڑھیں: بہادری کے خوب چرچے ہوئے اور لوک فنکاروں نے اسی واقعہ سے متاثر ہوکر اپنا مشہور زمانہ سندھی گیت ”ہو جمالو“ تخلیق کیا جو اسی واقعہ کے گرد گھومتا تھا
بڑے اسٹیشن اور جنکشن
ایک مثالی اور بڑے اسٹیشن یا جنکشن پر ایک وسیع و عریض عمارت ہوتی ہے جس میں دو تین کھڑکیوں والا ٹکٹ گھر اور اس سے متصل ایک بہت بڑا ہال ہوتا ہے جہاں مسافر اندر پلیٹ فارم پر جانے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسٹیشن ماسٹر کا بڑا اور شاندار کمرہ ہوتا ہے جہاں وہ ایک بڑی سی میز جمائے بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اسی یا اگلے کمرے میں اس کے عملے کے کچھ افراد بھی ہوتے ہیں جو آگے پیچھے کے اسٹیشنوں کے ذمہ دار ملازمین سے رابطے میں رہتے ہیں اور اسٹیشن ماسٹر کی طرف سے دی گئی ہدایات کو متعلقہ ملازمین تک پہنچاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ دھماکا: دہشتگردوں کا سر پوری قوت سے کچلنے کا فیصلہ، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن بڑھائے جائیں گے، وفاقی وزیر داخلہ
محیط
اس مرکزی عمارت کے آس پاس چھوٹی بڑی بے شمار عمارتیں ہوتی ہیں جن میں مختلف نوعیت کی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں۔ اور کچھ گودام ہوتے ہیں۔ پھر اسٹیشن سے باہر نکل کر سگنل کیبن ہوتے ہیں۔ اس دفتری ماحول سے نکل کر لمبے چوڑے پلیٹ فارم پر نکلیں تو وہاں کھانے پینے اور متفرق اشیاء اور کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹال ہوتے ہیں۔ اکثر پلیٹ فارم پر بک اسٹال بھی ہوتے ہیں۔ یہیں کہیں پلیٹ فارم کے درمیان میں ٹھنڈے پانی کے برقی کولر یا پانی کے نل لگے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس؛سپریم کورٹ نے مجرم ظاہر جعفرکی اپیل پر فیصلہ سنا دیا
پلیٹ فارم کے دروازے
اسٹیشن سے باہر نکلنے والے دروازے پر ایک چاق و چوبند ٹکٹ کلکٹر کھڑا ہوتا ہے جو ہر نکلنے والے سے ریل کا ٹکٹ، پاس یا پلیٹ فارم ٹکٹ طلب کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی محمد رضوان اور سلمان علی آغا سمیت اسلام آباد سے لاہور پہنچ گئے
پلیٹ فارم ٹکٹ کی داستان
ہاں یہ پلیٹ فارم ٹکٹ کی بھی عجب داستان ہے۔ کہتے ہیں انگریزوں کے وقتوں میں جب مسافروں کی ٹولیاں گاڑی سے اتر کر اسٹیشن سے باہر نکلتی تھیں تو ان کے پیچھے مفت سفر کرنے والا ایک آدھ نام نہاد مسافر بھی ساتھ ہو لیتا تھا جو گاڑی کے اندر تو ٹکٹ چیکر کی شاطر نظروں سے بچ نکلتا تھا تاہم یہاں اس کے پکڑے جانے کے امکانات روشن ہوتے تھے۔ پھر جب اس سے ٹکٹ کا پوچھا جاتا تو وہ آگے جانے والے مسافروں کی طرف اشارہ کرکے کہتا کہ "جی میں تو ان مہمانوں کے استقبال کے لیے آیا تھا" جب محکمہ والوں نے دیکھا کہ اس قسم کی استقبالیہ ذمے داریوں نبھانے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو انھوں نے پلیٹ فارم پر جانیوالوں کے لیے بھی ٹکٹ لگا دیا جو واپسی پر ٹکٹ چیکر کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔ یہ ٹکٹ ہمارے بچپن میں تو چار آنے کا ہوتا تھا مگر اب سنا ہے کوئی بیس تیس روپے کا ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی سے عمانی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی تعاون بڑھانے پر اتفاق
باب 2: پلیٹ فارم
پلیٹ فارم پر تھا جس کا جسم، روح ریل میں
اک ایسا شخص ریل میں سوار ہو نہیں سکا
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔