مودی سرکار کا “پانی پر بیانیہ” بھی “شرم سے پانی پانی” ہو گیا، دریائے جہلم میں اضافی پانی چھوڑنے کی حقیقت سامنے آ گئی

بھارتی پروپیگنڈہ بے نقاب
لاہور ( طیبہ بخاری سے ) دریائے جہلم میں اضافی پانی چھوڑنے کے حوالے سے بھی بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب ہو گیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ "شرم سے پانی پانی" ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: دھی رانی پروگرام کے تحت اجتماعی شادیوں کے باقاعدہ آغاز کا فیصلہ، پہلی تقریب کس شہر میں ہو گی؟ جانیے
بھارت کی یکطرفہ معطلی کا دعویٰ
ذرائع نے بتایا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے اعلان کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ بھارت کی یہ کوشش صرف اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کی بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت نے پہلے دریائے جہلم میں اضافی پانی چھوڑ کر سیلابی صورتحال کا تاثر دینا چاہا، جبکہ بھارت کی اس کوشش کے نتیجے میں مظفر آباد کے علاقے ڈومیل سے 22 ہزار کیوسک کا ریلہ گزرا۔
یہ بھی پڑھیں: لڑکی نے بوائے فرینڈ سے مشکوک میسجز بارے پوچھا تو آگے سے ایسا خوفناک رد عمل ملا کہ معذور ہو کر رہ گئی
نئی معلومات اور صورتحال
ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے بعد مغربی دریاؤں کی نگرانی وزارت آبی وسائل اور واپڈا کر رہے ہیں۔ بھارت کے پاس دریا کا بہاؤ روکنے یا اس میں تبدیلی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کی پانی کی ضروریات کو خطرہ لاحق نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی 9 مئی سے متعلق مقدمات میں ضمانت خارج ہونے کا تحریری فیصلہ جاری
پانی کی گنجائش کا موازنہ
بھارت کے پاس اس وقت مغربی دریاؤں پر محض 0.624 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں، صرف پاکستان کے منگلا ریزروائر میں 7.35 ملین ایکڑ گنجائش ہے، لہٰذا پاکستان کے پانی کی فراہمی کے حوالے سے کوئی خاص یا مستقل رکاوٹ متوقع نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے ججز تقریری کمیٹی کے لیے 3 نام فائنل کرلئے
بھارتی سرگرمیوں کا مقصد
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بھارتی سرگرمیوں کا مقصد بنیادی طور پر ایک بیانیہ بنانے کی کوشش ہے۔ وزارت آبی وسائل اور واپڈا، صورتحال کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں اور بروقت اپ ڈیٹ جاری کر رہے ہیں۔
آبی ماہرین کی رائے
دوسری جانب آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کو آبی سلامتی اور پانی کے لحاظ سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں فاسٹ ٹریک بنیادوں پر بڑے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے۔