ریکارڈ کے مطابق رات 10بجے نور مقدم کا قتل ہوا، ساڑھے 11بجے مقدمہ درج ہوا، پوسٹ مارٹم کے مطابق نور مقدم کا انتقال رات 12بج کر 10منٹ پر ہوا، وکیل سلمان صفدر کے دلائل

نور مقدم قتل کیس کی سماعت
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)نور مقدم قتل کیس میں ملزم کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ریکارڈ کے مطابق رات 10بجے واقعہ ہوا، ساڑھے 11بجے قتل کا مقدمہ درج ہوا، پوسٹ مارٹم صبح ساڑھے9بجے ہوا جس کے مطابق نور مقدم کا انتقال رات 12بج کر 10منٹ پر ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: صورتِ حال انتہائی خطرناک، بھارت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے: ممتاز زہرہ بلوچ
ملزم کی میڈیکل ہسٹری
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی، وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ ملزم ظاہر جعفر کی 2013سے آج تک کی میڈیکل ہسٹری عدالت میں پیش کردی، ملزم کو قتل پر سزائے موت، ریپ پر عمر قید اور اغوا پر 10سال قید کی سزا سنائی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریپ پر عمر قید کو بڑھا کر سزائےموت کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: قیدی نمبر 804 کی تصاویر کے ساتھ ٹک ٹاک بنانے پر میڈیکل آفیسر کو ترقی مل گئی
عدالت کے تبصرے
ہائیکورٹ نے کہاکہ عمر قید یعنی کم سزا کی وجوہات ٹرائل کورٹ نے نہیں بتائیں، ابتدائی ایف آئی آر صرف قتل کی تھی، دیگر جرائم بعد میں شامل کئے گئے، وقوعہ کے 22دن بعد اغوا اور ریپ کی دفعات شامل کی گئیں۔ واقعہ کی جگہ ملزم ظاہر جعفر کا گھر تھا، اس کے شواہد پیش نہیں کئے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم یوتھیے ہوں یا پٹواری پاکستان پر بات آئی تو ہم سب ایک ہیں پاکستانیوں کا مودی کو واضح پیغام
پولیس کی کارکردگی
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ ریکارڈ کے مطابق رات 10بجے واقعہ ہوا، ساڑھے 11بجے قتل کا مقدمہ درج ہوا، پوسٹ مارٹم صبح ساڑھے 9بجے ہوا جس کے مطابق نور مقدم کا انتقال رات 12بج کر 10منٹ پر ہوا۔ واقعہ کے ایک زخمی امجد کو پولیس نے گواہ کے بجائے ملزم بنا دیا، پولیس کا انحصار سی سی ٹی وی فوٹیج پر ہے، ملزم ظاہر جعفر کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ بھی کرایاگیا۔
سماعت کے دوران کی گفتگو
دوران سماعت عدالت میں بانی پی ٹی آئی کے 9مئی مقدمہ کا بھی تذکرہ ہوا، وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کا ذکر کچھ دن پہلے اور کیس میں بھی آیا تھا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے سلمان صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ فیصلہ تو آپ کے حق میں کردیاتھا۔ سلمان صفدر نے کہاکہ مدعی شوکت مقدم کے علاوہ تمام گواہ سرکاری تھے، جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ آپ کے مطابق واقعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں، تمام شواہد واقعاتی ہیں۔