کہتے ہیں انگریز بہت دور کی سوچتا ہے، پْلوں کی تعمیر کا کام جاری ہی تھا کہ ریل گاڑیوں کی بوگیوں اور اسٹیم انجنوں کو ہندوستان پہنچانا شروع کردیا۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 148

انگریز سرکار کی کوششیں

انگریز سرکار کی یہ کوشش تھی کہ جتنا جلد ممکن ہو ہندوستان کے تمام اہم علاقوں کو ریل کے ذریعے آپس میں منسلک کرکے وہاں فوجی چھاؤنیاں قائم کر دی جائیں جہاں بھاری تعداد میں ان کی فوجیں موجود رہیں۔ ہندوستان کے وسطی علاقوں میں دہلی کو صدر مقام اور مرکزی شہر کا درجہ دے کر فوج کی بھاری نفری کو وہاں متعین کر دیا گیا تھا۔

شہری اور فوجی موجودگی

ویسے تو شمالی اور جنوبی ہندوستان کے سب بڑے شہروں میں فوجیں موجود تھیں لیکن وہ زیادہ تر تجارتی شہر تھے جیسے کہ بمبئی، کلکتہ، کراچی اور احمدآباد وغیرہ۔ کچھ علاقوں اور ریاستوں کو انگریز بڑے شاطرانہ انداز میں وہاں کے حکمرانوں کے ذریعے چلا رہے تھے۔ وہ دھونس دھمکیوں یا لالچ کے ذریعے اس ریاست کے حکمرانوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے تھے۔

ٹیپو سلطان کی بغاوت

اس سے پہلے اٹھارہویں صدی میں میسور میں ٹیپو سلطان کی طرف سے بغاوت اٹھی تھی جسے حکومت نے اپنے زَر خرید غلاموں اور غداران وطن کے ذریعے بڑی کامیابی سے دبا دیا تھا۔ اب سارے وسطی اور مشرقی ہندوستان میں ریلوے کا نظام مضبوط جڑیں پکڑ چکا تھا اور بڑی کامیابی سے چل رہا تھا۔

ریلوے کا توسیع پروگرام

ساتھ ساتھ برانچ لائنوں کے ذریعے اس کو مزید پھیلایا جا رہا تھا، اب لے دے کے ان کے لیے زیادہ اہم علاقے کچھ وسطی اور جنوبی ہندوستان، ایران اور افغانستان کے ساتھ لگتے ہوئے شمال مغربی اور شمال کے رہ گئے تھے۔ اور اس طرف سے انھیں روس، افغانستان کی حکومت اور قبائلی علاقوں سے للکارا بھی جاتا تھا۔

اہم ریلوے سٹیشنز

ان کو قابو میں رکھنے کے لیے وسطی پنجاب کے لاہور، راولپنڈی اور کئی دوسرے بڑے شہروں میں ریلوے اسٹیشن بلکہ جنکشن بنانے کے لیے چنا گیا۔ کہتے ہیں انگریز بہت دور کی سوچتا ہے، ابھی ریلوے کی پٹریوں، اسٹیشنوں کی عمارتوں اور پلوں کی تعمیر کا کام جاری ہی تھا کہ محکمہ ریلوے نے ان پر دوڑانے کے لیے ریل گاڑیوں کی بوگیوں اور اسٹیم انجنوں کو ہندوستان پہنچانا شروع کردیا۔

مارکیٹ اور بنیادی ڈھانچہ

مرکزی ہندوستان کے لیے تو ریلوے کا یہ تعمیراتی سامان بمبئی، کلکتہ اور دوسری بندرگاہوں کے ذریعے براہ راست پہنچتا رہا لیکن سندھ، پنجاب اور سرحد میں چلائی جانے والی گاڑیوں کے انجن اور بوگیوں کو لاہور تک لانے کے لیے کراچی کی بندرگاہ کا انتخاب کیا گیا۔ لاہور امرتسر دہلی کا راستہ ابھی زیر تعمیر تھا۔

پاکستانی علاقے میں ریل کا بنیادی ڈھانچا

اس وقت موجودہ پاکستانی علاقے میں ریل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی کیفیت کچھ یوں تھی: کیماڑی کی بندرگاہ یعنی کراچی سے کوٹری تک ریل کی پٹری مکمل طور پر بچھ چکی تھی۔

کوٹری کا پل ابھی زیر تعمیر تھا- اس لیے یہ ریلوے لائن وہیں پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔

کوٹری کے بعد لاڑکانہ کے راستے سکھر تک ریل کی پٹری تکمیل کے قریب تھی مگر ابھی اسے کچھ اور وقت درکار تھا۔ ویسے بھی سکھر والے پل کا ابھی دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔

دوسری طرف لاہور سے ملتان اور پھر ملتان سے روہڑی تک پٹریوں کی تعمیر کا کام ابھی تکمیل سے کچھ دور تھا۔ راستے میں دریائے ستلج پر ایک بڑا پل بھی بنایا جانا تھا۔

نتیجہ

کام بہر حال تیز رفتاری سے ہو رہا تھا لیکن ابھی کوٹری سے بذریعہ ریل گاڑی سیدھا لاہور آنا ناممکن تھا۔ شمال کی طرف لاہور سے پشاور جانے والی پٹری بھی ابھی زیر تعمیر تھی، لیکن اگر وہ مکمل بھی ہو جاتی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اس کے ذریعے انجن یا ڈبے لاہور نہیں لائے جا سکتے تھے۔ ان کو بہرحال وسطی ہندوستان یا کراچی کی بندرگاہ کے راستے ہی اس علاقے میں پہنچایا جا سکتا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...