ایک وقت آتا ہے کہ دوستیاں سمٹ سی جاتی ہیں لیکن لنگوٹیے یار نہ بدلتے ہیں نہ بگڑتے ہیں، جب بھی ملیں گے خلوص اور محبت کے قطب مینار ہی ہوںگے۔

زندگی کی دو اقسام
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 190
زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کریں۔ بیچلر زندگی میں ذمہ داریاں کم اور رونق میلے زیادہ ہوتے ہیں۔ یار دوست، عزیز و اقارب جب چاہیں منہ اٹھا کر ادھر ادھر چلے آتے ہیں۔ نہ فکر نہ فاقہ۔ مگر ازدواجی زندگی کے تقاضے یکسر ہی زندگی میں تبدیلی لے آتے ہیں۔ ذمہ داری زیادہ، سنجیدگی زیادہ، سارے رشتوں کے لئے متوازن وقت، بیوی کی ناز برداریاں، دوستوں کے لئے وقت میں کمی اور پھر آہستہ آہستہ یہی زندگی کی روٹین بن جاتی ہے۔ متوازن زندگی ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ ہر رشتہ اہم اور ہر رشتے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ بس یہ کر پائیں تو خوشی دیرپا ہو جاتی ہے۔ ورنہ زندگی تو بسر کرنی ہے، ہنس کر گزارو یا لڑ کر یا رو کر۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور: اسلام آباد آنے اور واپس پشاور جانے کی کہانی، جاوید لطیف کا سوال
دوستی کے دائرے
وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ دوستوں کے سرکل میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ دوستیاں پھر سمٹ سی جاتی ہیں لیکن لنگوٹیے یار نہ بدلتے ہیں نہ بگڑتے ہیں۔ جب بھی ملیں گے خلوص اور محبت کے قطب مینار ہی ہوں گے۔ نہ ان سے کچھ چھپا ہوتا ہے اور نہ ہی چھپایا جا سکتا ہے۔ چھپاؤ تو نہ جانے انہیں کہاں سے علم ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں موت کا ننگا ناچ
رن مرید ایسوسی ایشن
ایک رات ادریس بھائی کے گھر بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ میری فیملی کے علاوہ آصف، شمعون اور امریکہ سے آئے ادریس بھائی کے دوست اور لالہ دلاور، چوہدری اصغر کی فیملی بھی شامل تھیں۔ یہاں بات بیویوں کی شروع ہوئی۔ چوہدری اصغر کہنے لگے؛ "اگر رن مرید ایسوسی ایشن بنے تو میں اپنی بیوی کی تابعداری کے حوالے سے اس کا چیئرمین ہوں گا۔ میرے خیال کے مطابق کم ہی لوگ مجھ جتنے رن مرید ہو سکتے ہیں۔" شمعون بولے؛ "مجھے سیکرٹری رکھ لیں۔ تابع دار تو میں بھی کافی ہوں۔" مجھے ایک سیانے کی بات یاد آ گئی؛ "دنیا کے سارے شریف خاوند بیوی سے ڈرتے ہیں، جو کہتا ہے میں نہیں ڈرتا وہ جھوٹ بولتا ہے۔" لہٰذا میں نے کہا؛ "مجھے اس ایسوسی ایشن کا ممبر بنا لیں۔" ایسا ہی خیال آصف کا بھی تھا۔ ادریس بھائی بولے؛ "میں اپوزیشن لیڈر بننا پسند کروں گا۔" انہوں نے اپنی بیگم پر رعب دکھاتے انہیں فون کیا اور ہمیشہ کی طرح سخت لہجے میں "ابھی تک کھانا نہ چننے کا گلا کر ڈالا۔" خیر مذاق کی بات مذاق میں ختم ہوگئی۔ ہم گھر آ گئے۔ چند دنوں بعد میرے بچے لاہور چلے گئے تو ادریس بھائی کہنے لگے؛ "جب تک بھابھی نہیں ہیں، آپ ناشتہ میرے پاس ہی آکر لیا کریں۔" میں یہ بتاتا چلوں کہ ادریس بھائی اور ان کے گھر والوں کے ساتھ بڑی بے تکلفی تھی، بھابھی میری بہنوں کی طرح تھیں اور وہ ہمیشہ ہی بڑا خیال کرتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہم نے کچھ نہیں چھپایا حقیقت بتائی،دشمن کو جیسے ہمارے میڈیا نے جواب دیا اس پر فخر ہے: آرمی چیف
ایک دلچسپ واقعہ
سردیوں کے دن تھے۔ ادریس بھائی کی کئی کنال کی کوٹھی برلب جی ٹی روڈ تھی۔ پرانے زمانے کی اس کوٹھی کا باورچی خانہ رہائشی حصہ سے ذرا ہٹ کر تھا۔ میں اگلے روز ناشتہ کرنے سیدھا باورچی خانے کی طرف ہی چلا گیا۔ باورچی خانے کا دروازہ ہلکا سا کھلا تھا اور اندر سے ادریس بھائی کی آواز آ رہی تھی جو بھابھی کی منت سماجت کرتے کہہ رہے تھے؛ "مہربانی ناشتہ بنا دو۔ وعدہ کرتا ہوں آئندہ اونچی آواز میں بات نہیں کروں گا۔" میں نے یہ سن کر دروازہ کھولا اور بھابھی کو سیلوٹ کرتے کہا؛ "بھابھی جی! آپ پر رعب ہمارے سامنے ہی ہے اس اپوزیشن لیڈر کا۔ گھر میں تو بھیگی بلی ہیں۔" کہنے لگیں؛ "بھائی! انہوں نے انتہا ہی کر دی ہے۔ آپ انہیں سمجھایا کریں۔" انہیں سمجھانا ناممکن تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔