گھنٹے ڈیڑھ بعد میری اس سے ملاقات ہوئی، کمزور لگ رہی تھی رنگ پیلا ہوا تھا، میں نے ماتھے پر بوسہ دیا،ہماری آنکھوں میں آنسو تھے خوشی کے

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 196
عمر صاحب کی آمد
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ستمبر میں چندا لاہور گئی جہاں اس کی گود بھرائی کی رسم ادا ہوئی اور وہ ہمارے پہلے بچے کے انتظار میں اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ یکم نومبر 89 کو اللہ نے ہمارے گھر صبح 10 بجے ہسپتال میں چاند اتار دیا۔ اس چاند کا نام امی جی نے "محمدعمر شہزاد" رکھا۔ ہمارا پرنس آف ویلز۔ جب اس کی پیدائش ہوئی امی جی، میری ساس، سالی سبھی ہسپتال میں تھیں۔ یہ خوشخبری ملتے ہی میں اور ابا جی مٹھائی لے کر ہسپتال پہنچے۔ ابا جی نے مجھے گلے لگا کر پیار کیا، امی جی نے ڈھیروں دعائیں دیں۔ ساس اور سسر اور دوسرے عزیز و اقارب بھی بہت خوش تھے۔ ہر طرف مبارک باد کی صدائیں تھیں لیکن میں اپنی چندا کو دیکھنے کو بے قرار تھا جو ابھی لیبر روم میں ہی تھی۔ وہ اب پہلے سے زیادہ معزز ہو گئی تھی۔ ماں بن گئی تھی۔ ماں جس کے پاؤں تلے جنت ہے۔ میں باپ بن گیا تھا۔ باپ جس کی دعا اللہ رد نہیں کرتا۔ گھنٹے ڈیڑھ بعد میری اس سے ملاقات ہوئی۔ وہ کمزور لگ رہی تھی رنگ پیلا ہوا تھا۔ میں نے اسے ماتھے پر بوسہ دیا۔ ہماری آنکھوں میں آنسو تھے خوشی کے آنسو۔ دوسرے دن عمر اور عظمیٰ اپنی نانی کے گھر چلے گئے اور میں 3 دن رہ کر لالہ موسیٰ چلا آیا۔
منگو پارٹی ہیڈ جگو اور ہیڈ مرالہ کی پکنک
یہ 2 پکنک 2 مختلف ویک ڈیز پر ہوئیں۔ میزبان دونوں بار ادریس بھائی ہی تھے۔ ایک روز وہ دفتر آئے مجھے گاڑی میں ساتھ بٹھایا۔ بی ایچ یو (بنیادی مرکز صحت) پہنچے۔ ڈاکٹر سہیل اور ڈاکٹر خالد بٹ کو ساتھ لیا اور سرائے عالم گیر سے نہر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے سات آٹھ کلومیٹر اپ سٹریم "ہیڈ جگو" پہنچے۔ یہ ہیڈ سے دریائے جہلم کے فلو کو divert کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اُن دونوں ہیڈ بند تھا یعنی اس کا پانی روکا گیا تھا۔ ادریس بھائی نے گاڑی کی ڈکی سے دو سہری اور انور روٹول آم کی پیٹیاں نکالیں۔ آم بادشاہ پھل ہے۔ اپنی خوشبو اور ذائقہ کے اعتبار سے یہ دونوں قسمیں بادشاہ اور ملکہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم نے نیکریں پہنیں اور ہیڈ پر بنی سیڑھیوں سے اس کے 20 میں اتر گئے اور مزے لے لے کر آم چوستے رہے۔ پانی ہمارے گھٹنے گھٹنے تھا۔ تھوڑی دیر میں آسمان پر بادل چھا گئے۔ بادل، ٹھنڈی ہوا، پانی اور ذائقہ دار آم یہ نشہ تھا جس میں ہم ڈوبتے جا رہے تھے۔ پتہ ہی نہ چلا اور کئی گھنٹے گزر گئے۔ ہم آم چوستے رہے، لطیفے سناتے رہے اور گپ شپ لگاتے رہے۔ نہ جانے کہاں سے ایک خیال میرے دل میں عوج آیا "اگر اچانک ہیڈ میں پانی آ جائے تو ہمارا کیا ہو گا۔ رولیا۔" خوف کی لہر میرے دل میں دوڑ گئی اور میں نے اپنے دوستوں سے بھی اس کا اظہار کر ڈالا۔ بس پھر کیا تھا سب یہاں سے نکلے، کپڑے تبدیل کئے اور گھر کو ہو لئے لیکن تب تک ہم اپنے ساتھ لائے پھلوں کے بادشاہ سے پورا پورا انصاف کر چکے تھے۔ بعد میں مجھے کسی نے بتایا "ہیڈ میں پانی کھولنے سے پہلے اعلان کیا جاتا ہے۔" شاید ایسا ہی ہوتا ہو۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔