اسرائیل کے ایران پر حملے سے صدر ٹرمپ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ تہلکہ خیز دعویٰ

ٹرمپ کا جنگوں میں عدم مداخلت کا وعدہ
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) صدر ڈونلڈ ٹرمپ طویل عرصے سے اس وعدے پر مہم چلاتے آئے ہیں کہ وہ امریکہ کو نئی جنگوں میں نہیں جھونکیں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی روس-یوکرین اور اسرائیل-غزہ کی جنگیں ختم کر دیں گے، جو تاحال نہیں ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم میں سود کے خاتمے سے متعلق کیا تجویز دی گئی ہے؟ مسودے میں انکشاف
ایران سے متعلق حالیہ بیانات
بی بی سی کے مطابق اگرچہ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملے کی منظوری نہیں دی لیکن ٹرمپ کی سوشل میڈیا پوسٹس واضح طور پر اس تاثر کو تقویت دیتی ہیں کہ وہ اس کارروائی کے حامی ہیں۔ انہوں نے ایک پوسٹ میں لکھا "ایران کو ایک معاہدہ کر لینا چاہیے، اس سے پہلے کہ کچھ باقی نہ بچے، اور اسے بچا لینا چاہیے جو کبھی ایرانی سلطنت کہلاتی تھی۔"
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر فرحان ورک نے فتح میزائل کی آئل پینٹنگ پر بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کردیا
ایران کی ایٹمی سرگرمیوں پر دباؤ
یقینی طور پر وہ اس کشیدگی کو ایران پر دباؤ ڈالنے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ ایران اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام سے دستبردار ہو جائے، جو بظاہر ممکن نہیں لگتا۔ تاہم ٹرمپ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ صورت حال ان کے حمایتی حلقے کو شدید تقسیم کر دے، جو ان کے "کوئی نئی جنگ نہیں" اور "مداخلت نہیں" کے وعدے پر مضبوط یقین رکھتے ہیں۔ ان حلقوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت انہیں اپنے اس وعدے سے پیچھے ہٹا سکتی ہے۔
ٹرمپ کی صدارت کا مستقبل
ٹرمپ اس نازک توازن کو کیسے برقرار رکھتے ہیں، یا رکھ بھی پاتے ہیں یا نہیں، یہی بات ان کی صدارت کو ان کے بہت سے حمایتیوں کی نظر میں تعریف یا تنقید کا مرکز بنا سکتی ہے۔