اگر ایران آبنائے ہرمز بند کردیتا ہے تو سعودی عرب کو فرق نہیں پڑے گا، تہلکہ خیز رپورٹ آگئی

ایران کی دھمکیاں اور آبنائے ہرمز
ریاض (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل کی جانب سے ایران پر غیر معمولی حملے کے بعد، ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔ یہ آبنائے دنیا کی نصف سے زیادہ تیل و گیس کی پیداوار کا راستہ ہے اور اس کی بندش کے عالمی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ ایران نے ماضی میں بھی آبنائے کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے، لیکن اس پر کبھی مکمل عمل نہیں کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی معیشت خود اس آبنائے پر اپنے تیل کی برآمدات کے لیے منحصر ہے۔ اس کی مکمل بندش سے ایران کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعہ: سلامتی کونسل میں پاکستان کی سفارتکاری کام کر گئی، بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا
متبادل راستے
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس متبادل پائپ لائنز موجود ہیں جو انہیں آبنائے ہرمز کے بغیر بھی اپنی تیل کی مصنوعات عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے قابل بناتی ہیں۔ سعودی آرامکو کے پاس روزانہ سات ملین بیرل تک کی گنجائش والی پائپ لائن ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات کی پائپ لائن روزانہ ڈیڑھ ملین بیرل لے جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سنبھل کی مسجد کے نیچے مندر کے دعوے کی وجوہات کیا ہیں؟
امریکی بحری افواج کی ممکنہ مداخلت
ماہرین کا کہنا ہے کہ آبنائے میں خلل ڈالنے کی صلاحیت مکمل بندش سے مختلف ہے۔ ایران بغیر پائلٹ کے ڈرون یا بحری جہازوں کے ذریعے جہاز رانی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ تاہم مکمل بندش کی صورت میں امریکی بحری افواج کی مداخلت کا قوی امکان ہے۔ 1980 کی دہائی کی ٹینکر وار کے دوران بھی آبنائے ہرمز سے تیل کی ترسیل میں کوئی بڑا تعطل نہیں آیا تھا۔ اس وقت بھی مکمل بندش ایران کے لیے ممکن نہیں ہو سکی تھی۔
عالمی معیشت پر اثرات
سینٹر فار سیکیورٹی پالیسی کا کہنا ہے کہ چونکہ آبنائے سے گزرنے والے خام تیل کا 76 فیصد ایشیائی منڈیوں کے لیے ہوتا ہے، اس لیے چین سمیت ایران کے اتحادیوں کے مفاد میں بھی نہیں ہوگا کہ یہ آبنائے مکمل طور پر بند ہو۔ طویل المدتی بندش کا امکان انتہائی کم ہے، تاہم ابتدائی اثرات میں توانائی کی قیمتوں اور شپنگ کے اخراجات میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے عالمی سطح پر مہنگائی پر بالواسطہ اثر پڑے گا۔ اسرائیل کو اس بندش سے براہ راست کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اس کی تیل کی تمام ضروریات بحیرہ روم کے راستے پوری ہوتی ہیں۔