عشق و محبت کا بھوت تھا جو بغیر ایک دوسرے کو دیکھے ہم دونوں پر سوار ہو کررہا، یہ ایک طرح سے روحانی تعلق تھا جو حقیقی محبت کے روپ میں ڈھل گیا

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 71
نتائج/ اچھے بْرے اثرات
مجھے اعتراف کرنا چاہیے میری طبیعت میں رومانس/ عشق و محبت کا جذبہ موجزن تھا جسے میں نے گریجوایٹ ہونے کے بعد تک دبائے رکھا اور اس جذبہ کو زیر کنٹرول رکھنے میں ایک تو میری زندگی میں وکالت، سیاست، ملی خدمت کے عزائم اور قائد و اقبال کے ساتھ میرے روحانی تعلق نے بڑی مدد دی۔ یہی وجہ تھی کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں کو ایجوکیشن اور یوتھ موومنٹ میں دیگر خواتین کالجوں کی طالبات کی بھرمار کے باوجود اور کئی لڑکیوں کی ماؤں کی جانب سے اپنی بچیوں کے ساتھ شادی کی آفرز کے ہوتے ہوئے بھی میں ہر طرف سے محفوظ رہا۔
دوسری وجہ خود روز رحمان تھی جو گیارہویں جماعت 1959ء سے بطور قلمی دوست میرے رابطہ میں تھی۔ 1964ء تک 5 سالوں کے دوران ہم دونوں میں سے کسی نے بھی کسی جذباتی لگاؤ تعلق یا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا تھا البتہ ہم دونوں نے اس دوران آپس میں ہم آہنگی اور فکری یگانگت ضرور محسوس کی تھی۔ بہرحال میں نے اپنی مصروفیات اور مخصوص خانگی حالات کی وجہ سے اس سے قلمی دوستی کا تعلق ختم کرنے کی بھی کوشش کی لیکن عشق و محبت کا بھوت تھا جو بغیر ایک دوسرے کو دیکھے اور ملاقات کئے بھی ہم دونوں پر سوار ہو کر رہا۔ یہ ایک طرح سے ہمارا روحانی تعلق تھا جو حقیقی محبت کے روپ میں ڈھل گیا۔
زندگی کی جدوجہد کا عزم
جب ہماری محبت جوان تھی تو ہم دونوں میں زندگی خود سے بنانے اور جدوجہد کرنے کا عزم بالجزم بھی پوری طرح موجود تھا۔ ہم خود اعتمادی کی بلندیوں پر تھے۔ ذہنی ہم آہنگی اور سالوں کی ایک دوسرے کے بارے میں آگاہی کے باعث ہم جدوجہد سے بھرپور ایک خوبصورت توانا زندگی کا تصور رکھتے تھے۔
ذہنی انتشار اور مایوسی
جب سماج کی مخالفت کے باعث ہم دونوں کا ملاپ نہ ہو سکا تو ظاہر ہے ذہنی انتشار، مایوسی اور صدمے کی کیفیت نے مجھے کافی عرصہ گھیرے رکھا جس کی وجہ سے میرا حافظہ اور ذہنی و جسمانی استعداد بری طرح متاثر ہوئی۔
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجئے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
محبت کا امتحان
عشق و محبت کا دکھ محبت کرنے والوں کے لئے دنیا کا سب سے بڑا امتحان ہے جو آگ کے دریا میں سے گزرنے کا نام ہے اور بعض اوقات یہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ میں جان کنی سے شائد اس لئے بچ گیا کہ اپنے وسیع تعلقات عامہ اور قومی خدمت کے عزم کے باعث مجھے خود کو زندہ و بیدار رکھنا ضروری تھا۔ بہرحال اب میں دکھ، صدمہ اور ملال پروف بن چکا تھا۔
تعلیم کا نقصان
ظاہری طور پر اس Set back سے مجھے جو سب سے بڑا نقصان پہنچا وہ یہ کہ وقت پر میری قانون کی تعلیم مکمل نہ ہوسکی جس کے باعث وکالت و سیاست کے لئے جڑانوالہ والدین کے ساتھ سکونت پذیر ہو کر جڑانوالہ کو اپنا حلقہ (Constituency) بنانے کا میرا خواب صرف خواب بن کر رہ گیا۔ شائد اس میں بھی اللہ کی کوئی بہتری تھی جسے میں علیٰحدہ آگے چل کر تحریر کرونگا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔