دفتر بیٹھا بوریت محسوس کر رہا تھا،لاہور کا پلا بڑھا کہاں لالہ موسیٰ جیسے قصبے میں وقت گزار سکتا تھا،بچے لاہور تھے، ان دنوں کابلی پلاؤ کا بہت رواج ہوا تھا۔

کتاب کی معلومات

کتاب: کچھ حماقتیں کچھ صداقتیں
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 203

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے 5 امیر ترین اداکار اور اداکاراؤں کی تفصیلات سامنے آگئیں

کابلی پلاؤ اور ریشن کرنڈی

ایک روز دفتر بیٹھا بوریت محسوس کر رہا تھا۔ لاہور کا پلا بڑھا شخص کہاں لالہ موسیٰ جیسے قصبہ میں وقت گزار سکتا تھا پر نوکری کی مجبوری تھی۔ بچے لاہور تھے۔ ان دنوں کابلی پلاؤ اور ریشن کرنڈی (کپڑے کی ایک قسم) کا بہت رواج ہوا تھا۔ ریشن کرنڈی کا سوٹ پشاور سے 60 روپے کا ملتا بارگین سے 50 کا بھی مل جاتا تھا۔

خیال آیا کیوں نہ پشاور چلیں پلاؤ بھی کھائیں اور کرنڈی بھی خریدیں گے۔ غلام محمد سے پوچھا؛ "کیا کر رہے ہو۔" کہنے لگا؛ "سر! کیش بک لکھ رہا ہوں۔" جواب دیا؛ "کیش بک کل لکھ لیں گے۔"

لالہ نذر کو اس کے دفتر سے بلایا اور کہا؛ 'لالہ پشاور چلتے ہیں۔ کابلی پلاؤ تم کھلاؤ گے۔' راستے میں مشتاق کا پتہ کیا وہ بھی گھر پر تھا۔ اسے کہا؛ "گرم چادر رکھ لو اور گھر بتا دو کہ رات دیر سے آؤں گا۔" وہ بھی آ گیا۔

غلام محمد نے ڈیزل کا ٹینک 200 روپے میں فل کرایا۔ گاڑی اڑائی اور 6 گھنٹے میں پشاور پہنچے تو سہ پہر کے 3 بجے تھے۔ باڑہ مارکیٹ گئے۔ وہاں کابلی پلاؤ کھایا۔ کرنڈی کے 3 سوٹ خریدے۔ کابلی پلاؤ کا بل سن کر آپ یقین نہیں کریں گی۔ 4 آدمیوں کے کھانا کا بل 100 روپے تھا۔

پشاور آنے جانے کھانے پینے اور 3 کرنڈی کے سوٹ کا کل خرچہ پانچ چھ سو روپے۔ آج کے دور کے حساب سے ناقابل یقین۔ اس سفر نے لالہ نذر کی کنجوسی کی ساری کہانیاں باطل کر دی تھیں۔ تمام پیسے لالہ نذر نے ادا کرکے اپنے پر لگے کنجوسی کے دعویٰ غلط ثابت کر دیئے تھے۔

شام کے پھیلتے اندھیرے میں واپسی پر نوشہرہ سے 30 نمبر کی کڑک چائے پی۔ پشتو فلم دیکھی۔ اسلام آباد کے قریب پہنچے تو ایک کرولا والے سے گاڑی بھگاتے بارہ کہو پہنچ گئے۔ خیال آیا ہم تو مری کے راستے پر تھے۔ کرولا والا کب کا کسی موڑ سے مڑ چکا تھا۔ واپس ہوئے اور جی ٹی روڈ پر آئے۔

راستے میں "باؤلی" گاؤں کے قریب اسی نام کے ریسٹورنٹ پر نظر پڑی تو غلام محمد بولا؛ "سر! اس ہوٹل کا کھانا کمال ہے۔" سچی بات ہے بھوک بھی لگی تھی۔ میں نے تو مٹر قیمہ کھایا۔ واقعی بہت لذیز کھانا تھا۔ اس بار بھی ڈیڑھ دو سو روپے کا بل لالہ نذر نے ادا کرکے اپنے دریا دل ہونے پر مہر ثبت کر دی تھی۔

سچی بات تو یہ تھی کہ میرے ساتھ اس نے کبھی بھی کنجوسی نہیں کی تھی۔ ہمیشہ کہتا تھا؛ "سر! نہ جانے آپ کے ساتھ ہوں تو میرا دل چاہتا ہے سارے پیسے میں ہی خرچ کروں۔" یہ اس کی محبت تھی۔ اللہ کا کرم تھا کہ میرے سبھی ماتحت میرے ساتھ ایسی ہی محبت سے پیش آتے تھے۔

پینے کے صاف پانی کی منصوبہ بندی

1990ء کے آغاز میں محکمہ بلدیات حکومت پنجاب اور یونیسف پنجاب نے مل کر پینے کے صاف پانی اور لیٹرین کے استعمال کے حوالے سے ایک پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کے تحت ہینڈ پمپ کی تنصیب پر اٹھنے والے اخراجات کمیونیٹی نے خود برداشت کرنے ہوتے تھے۔

"الفریڈ ہینڈ پمپ" (250 فٹ گہرائی سے پانی نکالنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ افریقہ کے پسماندہ ترین علاقوں جہاں زیر زمین پانی کی سطح کافی گہری تھی یہ بڑا کامیاب رہا تھا۔) اور اس کے ساتھ دوسرے سامان کی قیمت تقریباً 20 ہزار روپے تھی۔ لگوانا چاہے گی اس کو سارا سامان یونیسف مفت مہیا کرے گی اور ساتھ میں 5 لیٹرین کا سامان بھی دے گی۔

(اس سامان میں ویسٹرن ٹائپ کموڈ اور فضلہ کی تلفی کے لئے بنائے گئے 3 بائی 6 سائز پٹ کے لئے سیمنٹ کے سلیب شامل تھے۔)

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...