افسوس ہوتا ہے کہ ہم سرکار کا پیسہ بے دردی سے خرچتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ بے دردی سے ضائع کرتے ہیں، بھائی یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے؟

مصنف: شہزاد احمد حمید

قسط: 206

سرکاری پیسے کی بیدردی

پائلٹ پراجیکٹ ایریا کی مشینری میں 6 عدد میسی فرگوسن ٹریکٹر، چھ ویٹ تھریشرز، مختلف قسم کے ہل اور بڑا revolving fund تھا۔ یہ ساری مشینری عرصہ سے بیکار پڑی سٹور میں گل سڑ رہی تھی۔ اس سٹور کی چھت بارش میں کئی کئی دن تک ٹپکتی رہتی تھی۔ یہاں رکھا سب کچھ زنگ آلود ہو چکا تھا۔ revolving fund کی واپسی عرصہ سے مؤخر تھی۔ کسان یہ روپے ہضم ہی کر چکے تھے۔ مدعی سست اور گواہ چست والی بات تھی۔ میں نے آ کر کوشش کرکے کچھ رقم برآمد کی۔ سرکار کو چھٹی بھی لکھی کہ مشینری کو نیلام کر دیا جائے یا محکمہ زراعت کے سپرد کر دی جائے۔ لیکن جواب کا آج بھی منتظر ہوں۔ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارے انتظامی نظام میں چھوٹے افسر کی بات کی کوئی اہمیت نہیں جب تک کہ وہ سی ایس پی نہ ہو۔ یہی المیہ ہے کہ ہم سی ایس پیز کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں اور پروفیشنلز کی رائے کو بھی ان کے مقابلے کم ہی اہمیت دیتے ہیں۔

ماہرین کی رائے کی بے قدری

اس کی مثال دیکھ لیں کہ ڈاکٹر بھی، انجینئر بھی، پی ایچ ڈی ماہر تعلیم بھی انہی کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ ماہر کے مقابلے ایک داہر کی بات کی اہمیت زیادہ ہو۔ یہاں سب ممکن ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہم سرکار کا پیسہ بے دردی سے خرچتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ بے دردی سے ضائع کرتے ہیں۔ بھائی یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے؟ وہ زمانہ بیت گیا جب "امیر امومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا جائے کہ دوسری چادر کہاں سے آئی، جمعہ کا خطبہ بعد میں دینا۔"

تارڑ صاحب کی ہلہ شیری اور میری حماقت

پائلٹ ایریا کی ایک جیپ تھی اور جیپ چلانا آج بھی میری کمزوری ہے۔ آج بھی جب جیپ چلاتا ہوں تو خود کو جوان محسوس کرتاہوں۔ میری جیپ کے پیچھے لکھا ہے؛
"Never underestimate an old man with a jeep."

پائلٹ ایریا کی جیپ کوشش کے باوجود چلانے کو نہیں ملتی تھی۔ اس کی اجازت پرنسپل اکیڈمی ہی دے سکتے تھے کہ وہ پائلٹ ایریا کے ڈائریکٹر تھے۔ ریاض تارڑصاحب سنئیر انسٹرکٹر اکیڈمی تھے۔ باریش، پنج وقت کے نمازی، ایماندار۔ وہ نوجوان افسروں کو پرنسپل کے خلاف ہلہ شیری دے کر اپنی بھڑاس نکالتے اور اپنے کسی پرانے بغض پر دل ہلکا کرتے تھے۔ میں نے ان سے جیپ کے حوالے سے بات کی تو بولے طریقہ بتاتا ہوں۔ قصہ مختصر انہوں نے مجھے کہا "ایک چٹھی لکھو اور اس میں نیاز علی ڈرائیور کے کیس کو بیس بنا کر لاہور جانے کے لئے جیپ کی اجازت مانگو۔ دیکھو کیسے نہیں ملتی۔"

میں ان کی باتوں میں آ گیا اور انگریزی میں سخت چٹھی پرنسپل غلام محمد صاحب کو بجھوا دی۔ جیسے ہی چٹھی پرنسپل تک پہنچی بلوا آ گیا۔ میری خوشی دیدنی تھی کہ چٹھی لکھنے کے 5 منٹ میں ہی کام ہو گیا۔ پرنسپل کے پاس جانے سے پہلے تارڑ صاحب سے ملا اور اپنی چٹھی کی کامیابی کی خبر دے کر پرنسپل صاحب کے دفتر پہنچا۔ وہ سنجیدہ مزاج اور ڈسپلن کے بہت سخت تھے۔ مجھے دیکھ کر بیٹھنے کو کہا اور بولے؛ "یہ چٹھی کس نے لکھی ہے۔" میں نے جی میں سر ہلایا۔ وہ بولے کس کے کہنے پر؛ "میں نے سچ بتا دیا۔" وہ بولے؛ "بیٹا! تم نے اپنا کیرئیر شروع کیا ہے۔ یہ چٹھی تمھیں نوکری سے نکلوانے کے لئے کافی ہے۔ افسر کو اتنے سخت الفاظ میں چٹھی لکھنا پروٹوکول اور manners کے خلاف ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ

یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...