کاروبار ٹیکس نظام میں 662 ارب روپے سے زائد کا ’بلیک ہول‘، ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

پاکستان کے ٹیکس نظام میں بڑی مالی لیکج
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) معروف صحافی، کالم نگار و تجزیہ نگار انصار عباسی نے بتایا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مالی سال 24-2023 کے دوران ملک کے ٹیکس نظام میں 662 ارب 70 کروڑ روپے کی بڑی مالی لیکج سامنے آئی ہے، جس سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے نظام میں سنگین خامیاں بے نقاب ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا بحری جنگی جہاز سے مقامی طور پر تیار کیے گئے بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ
مالی نقصان کی اقسام
نجی ٹی وی جیونیوز نے رپورٹ (آڈٹ ایئر 25-2024) کے حوالے سے بتایا کہ سب سے بڑا نقصان انکم ٹیکس کی مد میں 457 ارب روپے کا ہوا، جب کہ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 186 ارب 70 کروڑ روپے کا نقصان ریکارڈ کیا گیا۔
انکم ٹیکس میں نقصان کی وجوہات
انکم ٹیکس کی مد میں 457 ارب روپے کا نقصان درج کیا گیا، جس کی بڑی وجوہات درج ذیل ہیں:
- 167 ارب 90 کروڑ روپے کا سپر ٹیکس تاحال وصول نہ کیا جا سکا (1600 سے زائد مقدمات میں)
- 18 فیلڈ آفیسرز نے قابل اعتراض اخراجات کی بنیاد پر زائد کٹوتیاں منظور کیں جس سے 149 ارب 60 کروڑ روپے کا نقصان ہوا
- 62 ارب 30 کروڑ روپے کی ڈیمانڈز جمع ہی نہ کی گئیں
- 45 ارب 40 کروڑ روپے کے ودہولڈنگ ٹیکس کی عدم وصولی رہی
- 22 ارب 90 کروڑ روپے کا کم از کم ٹیکس غیر وصول رہا
سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز میں نقصان
سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 187 ارب روپے کا نقصان درج کیا گیا۔ سب سے بڑی لیکیج 123 ارب 60 کروڑ روپے کی رہی، جس کی وجہ یہ تھی کہ جعلی یا بلیک لسٹڈ سپلائرز کی جاری کردہ رسیدوں پر ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کلیم کیے گئے۔ مزید وجوہات میں شامل ہیں:
- 8 ارب 50 کروڑ روپے کے مزید نقصان کی وجہ یہ ہوئی کہ ان پٹ ٹیکس کو معاف اور قابل ٹیکس سپلائی کے درمیان تقسیم نہ کیا گیا
- 36 ارب روپے کی فروخت کم دکھا کر ٹیکس چوری کیا گیا
- 7 ارب 50 کروڑ روپے کی ناقابل قبول چھوٹ
- 5 ارب 50 کروڑ کی غیرقانونی ایڈجسٹمنٹس بھی وجہ رہی
- 3 ارب 50 کروڑ روپے کے واجب الادا جرمانے اور سرچارج وصول نہ کیے گئے
- اسٹیل اور ریٹیل سیکٹر کے درجنوں ادارے رجسٹر نہ کرنے کی وجہ سے ایک ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا
- فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (گیس، سیمنٹ، فضائی سفر وغیرہ پر) کی مد میں 78 کروڑ 80 لاکھ روپے کا شارٹ کلیکشن رہا
- کسٹمز کی مد میں 18 ارب 90 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں
- 12 ارب 60 کروڑ روپے کی ضبط شدہ اشیاء نیلام نہ ہوسکیں
- برآمدی ثبوت جمع کیے بغیر ڈیوٹی فری خام مال استعمال کرنے پر 3 ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا
- مکمل استثنیٰ (بلینکٹ ایگزمپشن) کی وجہ سے ایک ارب 60 کروڑ روپے کا نقصان ہوا
- درآمدی اشیاء کی غلط درجہ بندی کی گئی جس کے باعث ایک ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان ہوا
یہ بھی پڑھیں: شام میں حزبِ اختلاف کی حلب پر قبضے کے بعد ایک اور بڑے شہر کی طرف پیش قدمی، بہت سے علاقے پر قبضہ
اصلاحات کی ضروریات
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ اعداد و شمار منتخب فیلڈ دفاتر سے حاصل کردہ اعداد و شمار اور معلومات پر مشتمل ہیں اور ملک گیر سطح پر دیکھا جائے تو ممکن ہے نقصانات کا حجم اس سے زیادہ ہو۔ آڈٹ حکام کی 18 اصلاحی تجاویز میں درج ذیل اہم نکات شامل ہیں:
- آئرس (IRIS) اور ویب او سی (WeBOC) جیسے سسٹمز میں ای-ویریفکیشن کو لازم بنایا جائے
- جعلی رسیدوں اور کاغذی کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے
- رسک بیسڈ ڈیسک آڈٹس نافذ کیے جائیں
- آزاد ریفنڈ آڈٹ اسکواڈ تشکیل دیا جائے
- عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے لیے مضبوط قانونی سیل قائم کیے جائیں
- ’ٹریس اینڈ ٹریک‘ جیسے نظام پر فوری عملدرآمد کیا جائے
نتیجہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جعلی رسیدیں، صرف کاغذات پر بنی کمپنیاں (پیپر کمپنیز) اور عدالتی تاخیر کی وجہ سے نظام اندر سے کھوکھلا رہا تو ٹیکس نیٹ بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔