صوبائی دارالحکومت لاہور بدحالی کا شکار

تحریر: ملک سلمان
نواز شریف کی منفرد خصوصیات
نواز شریف کی یہ خوبی سب سے منفرد ہے کو انہوں نے پنجاب اور پاکستان کو جدید سہولیات سے آراستہ بھی کیا لیکن اس کی قدیم تاریخ کو زندہ رکھنے کیلئے بھی عملی اقدامات کیے۔ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور تاریخی اہمیت کے حامل لاہور کی قدیمی حیثیت کی بحالی کے اعلان سے لاہور سے محبت کرنے والے ہر فرد نے اس فیصلے پر شدید خوشی کا اظہار کیا۔ دنیا بھر میں موجود لاہوریوں نے اسے لاہور اور پنجاب کی سیاحت کے فروغ کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہوئے قدیم ثقافت کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔ ایک طرف نواز شریف لاہور کو دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے جارہے ہیں تو دوسری طرف لاہور لاقانونیت کی عملی شکل اور تجاوزات کا اڈا بن چکا ہے۔
لاہور کی تاریخی حیثیت
دنیا بھر میں صوبائی دارالحکومت کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ماضی میں جب شہباز حکومت میں لاہور کی تعمیروترقی پر تنقید ہوتی تھی تو میں ناقدین کو سمجھاتا تھا کہ لاہور صوبائی دارالحکومت ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ صوبائی ہیڈکوارٹر کو سب سے زیادہ ڈویلپ کرتے ہیں۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں سارا پاکستان لاہور کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اب یہ صورت حال ہے کہ تاریخی عمارات کا حامل لاہور اپنی شناخت کھو چکا اور صرف یہی پہچان باقی رہ گئی کہ بے ہنگم ٹریفک اور تجاوزات۔
ٹریفک پولیس کی حالت
ویسے تو پورے پنجاب کی ٹریفک پولیس ہی ٹک ٹاکر، کام چور اور غیرقانونی پارکنگ مافیا کی ساتھی ہے لیکن لاہور ٹریفک پولیس کا شمار نااہل اور کرپٹ ترین میں ہوتا ہے۔ ابھی تک بغیر نمبر پلیٹ، بلیک پیپر، راڈ لگاکر چھپائی اور غیر نمونہ نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف کاروائی نہیں ہوسکی۔ کبھی یہ دور تھا کہ لاہور کی سیاحت غیر ملکیوں کی توجہ کا مرکز ہوتی تھی اور مشہور تھا کہ جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔
سیاحت کی سہولت اور چیلنجز
ٹی ڈی سی پی سائٹ سیننگ بس سروس سے لاہور کو ایکسپلور کروانے کا اچھا انتظام کیا گیا ہے لیکن تجاوزات اور بے ہنگم ٹریفک کے باعث اس سہولت سے پوری طرح سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں ہو رہا۔
حکومتی کردار اور انتظامات
صرف ضلع لاہور میں پانچ ہزار ارب سے زائد مالیت کی سرکاری زمینوں پر پرائیویٹ مافیا کے قبضے ہیں۔ لاہور کی مختلف مارکیٹوں اور شاہراہوں پر عارضی تعمیرات اور تجاوزات قائم کروا کر ماہانہ پچاس کروڑ سے زائد صرف تجاوزات کی آمدنی حاصل کی جا رہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور کی ہدایات کے باوجود میونسپل کارپوریشن اور اسسٹنٹ کمشنرز احکامات پر عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ وزیراعلیٰ اور بورڈ آف ریونیو دونوں کے "کے پی آئی" میں لاہور مسلسل آخری نمبروں پر ہے۔
تجاوزات کی صورتحال
لاہور میں 20 فیصد تجاوزات ختم کروائی گئیں جبکہ چالیس فیصد نئی تجاوزات کی تعمیرات ہوچکی ہیں۔ چھوٹے موٹے چکڑ چوہدریوں نے جنگلے اور گیٹ لگا کر گلیاں بند کرنا شروع کر رکھی ہیں۔
قانون کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ گھروں کے باہر سرکاری زمین پر نرسریاں اور گارڈ روم بنائے جا رہے ہیں۔ کار شو رومز اور کار مکینک لاہور کی تمام سڑکوں پر قابض ہو کر بیچ سڑک دکانداری کر رہے ہیں۔
پولیس کی کارکردگی
خوش آئند بات ہے کہ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ ٹک ٹاکر نہیں ہیں اور پروفیشل پولیسنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران کی دیانت داری، میرٹ اور فرض شناسی کا ہر کوئی معترف ہے۔
بجٹ اور افسران کی ذمہ داری
سرکاری زمینوں پر قائم غیر قانونی ہاؤسنگ پراجیکٹس، کمرشل مارکیٹوں اور دیگر تعمیرات کا ماہانہ کرایہ سرکاری افسران کھا رہے ہیں۔ باغوں کے شہر لاہور کے پارکس کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کی کامیابی کے چانسز بھی معدوم ہیں۔
مریم نواز اور بیوروکریسی
مریم نواز اپنی وزارت اعلیٰ میں سات دفعہ تجاوزات کے خاتمے کا الٹی میٹم دے چکی ہیں لیکن بیوروکریسی تجاوزات ختم کروانے میں سنجیدہ نہیں۔ تجاوزات فری پنجاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اختتام
اگر سی سی ڈی 30 دن میں جرائم کا خاتمہ کرسکتی ہے تو ضلعی افسران ایک سال میں تجاوزات ختم نہیں کرواسکتے تھے؟ سب ممکن ہے لیکن اس کیلئے حرام کی کمائی چھوڑنا پڑتی ہے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مصنف ملک سلمان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: [email protected]