پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، چینی کے بحران پر بریفنگ، سخت سوالات کی بوچھاڑ، کہاں ہیں شوگر ملز مالکان کی تفصیلات۔۔۔؟

اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، چینی کے بحران پر بریفنگ، سخت سوالات کی بوچھاڑ، کہاں ہیں شوگر ملز مالکان کی تفصیلات؟ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چینی کی امپورٹ اور قیمتوں میں اضافے پر ایف بی آر حکام سے ملز مالکان کے نام مانگ لیے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کے اندر اختلافات سے متعلق شوکت یوسفزئی کا بیان
اجلاس کی تفصیلات
''جیو نیوز'' کے مطابق پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت ہوا جہاں چینی بحران پر بحث ہوئی،جب کہ سیکرٹری صنعت و پیداوار نے چینی بحران پر بریفنگ دی۔ سیکرٹری صنعت نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ شوگر انڈسٹری کو صوبائی حکومتیں ریگولیٹ کرتی ہیں، شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں، بورڈ میں شوگر انڈسٹری کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں اور بورڈ چینی کے موجودہ سٹاک اور ضروریات کا جائزہ لیتا ہے۔ کرشنگ سیزن 15 نومبر سے 15 مارچ تک ہوتا ہے، چینی کے موجودہ سٹاک اور متوقع پیداوار کا ڈیٹا صوبائی حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پچ سے متعلق غلط پیشگوئی پر ڈیوڈ وارنر نے شاہین کا مذاق اڑادیا
چینی کی قیمتوں پر سوالات
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ریاض فتیانہ نے کہا کہ چینی کی قیمت کی مد میں قوم کے ساتھ 287 ارب روپے کا دھوکہ کیا گیا ہے۔ اس کی نشاندہی کرنے والے پنجاب کے کین کمشنر زمان وٹو کو ہٹاکر کھڈے لائن لگا دیا گیا، کبھی کہتے ہیں کہ چینی سرپلس ہے اور کبھی شارٹ فال کا بتایا جاتا ہے۔
اس موقع پر چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے کہا کہ شوگر ملز مالکان کو برآمد کے لیے سبسڈی کیوں دی گئی؟
ریاض فتیانہ نے پوچھا، "کیا وجہ تھی کہ راتوں رات ایس آراو جاری کر کے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی؟"
یہ بھی پڑھیں: کراچی: غیرملکی شہریوں کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ ڈیٹا چوری میں ملوث ملزمان گرفتار
کمیٹی ممبران کی آراء
اجلاس کے دوران کمیٹی ممبر معین عامر پیرزادہ نے کہا کہ شوگر مافیا حکومتوں کا حصہ ہے، چیئرمین پی اے سی نے سیکرٹری صنعت سے کہا کہ ہم نے آپ سے شوگر ملز مالکان کی تفصیلات طلب کی تھیں؟ کہاں ہیں تفصیلات؟
اس پر سیکرٹری نے جواب دیا کہ ہمارے پاس شوگر ملز کی فہرست ہے، جنید اکبر نے کہا کہ شوگر ملز نہیں بلکہ مالکان اور ڈائریکٹرز کی تفصیلات بھی دیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ مریم نواز کی نور زمان کو انڈر 23 ورلڈ سکواش چیمپین شپ جیتنے پر مبارکباد
چینی کے سرپلس اور ایکسپورٹ
حکام وزارت صنعت و پیداوار نے بتایا کہ اس سال 13 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ چینی سرپلس رہی، 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی اگلے سال کیلئے ریزرو رکھی گئی۔ وفاقی کابینہ اور ای سی سی نے 3 مراحل میں 7 لاکھ 90 ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی، جس سے چینی برآمد کرکے 40 کروڑ ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کمایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا جوابی وار، امریکہ کے لیے انتہائی اہم معدنیات کی برآمد پر پابندی لگا دی
مقامی مارکیٹ کی صورتحال
حکام نے مزید بتایا کہ جب چینی ایکسپورٹ کی گئی تو مقامی مارکیٹ میں قیمت 143 روپے کلو تھی اور اب قیمت 173 روپے فی کلو ہے، مارکیٹ میں قیمت بڑھنے پر وزیراعظم نے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کے لیے منشیات کے خطرات سے پاک محفوظ ماحول پیدا کرنے کا عہد کرنا ہوگا: وزیر اعلیٰ مریم نواز
ایف بی آر کا ایس آراو
پی اے سی اجلاس میں چینی کی امپورٹ سے متعلق ایف بی آر کا ایس آراو بھی زیربحث آیا، رکن کمیٹی ثناء اللہ مستی خیل نے پوچھا کہ کن کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایف بی آر نے ایس آر او جاری کیا؟ چینی کی ایک روپیہ قیمت بڑھانے سے 44 ارب روپے کمائے جاتے ہیں، برسوں سے چوہے بلی کا کھیل جاری ہے، "خدارا ہمیں معاف کر دیں، مل مالکان ساری ملز پاکستانیوں کے حوالے کردیں، ہم چلا لیں گے۔"
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد رہی، وزیرخزانہ نے اقتصادی سروے میں اہم بیان
وزیراعظم کی تنقید
رکن کمیٹی معین عامر نے کہا کہ وزیراعظم پاکستانیوں کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، شوگر ایڈوائزری بورڈ سارے فساد کی جڑ ہے، اس میں عوامی نمائندے ہونے چاہئیں۔ بتایا جائے کہ چینی کی امپورٹ سے ہمارے کتنے ڈالرز ضائع ہونگے۔
رکن کمیٹی خواجہ شیراز نے کہا کہ یہ بھی بتایا جائے چینی ایکسپورٹ کرنے والی ملز کے مالکان کون کون ہیں۔
ایف بی آر حکام نے جواب دیا کہ آپ جب حکم کریں گے ہم مالکان کے ناموں کی تفصیلات دیدیں گے۔
اس پر کمیٹی چیئرمین جنید اکبر نے کہا کہ میں نے حکم دیا تھا لیکن آپ مالکان کے نام نہیں لائے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اقدامات
بعد ازاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایف بی آر سے ملز مالکان کے نام طلب کر لیے۔