جسٹس افتخار محمد چودھری نے انٹرویو لیتے وقت میرا سی وی دیکھنے کے بعد فرمایا کہ اپنے سابقہ دفتر سے فیملی ثبوت لے کر آئیں کہ آپ نے استعفیٰ دیا تھا۔

مصنف کا تعارف

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 112

یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کو فارم نہیں پلاٹ بھی دیں گے : صدر فاﺅنڈرز گروپ آصف بٹ کا اہم اعلان

بھائی کا دورہ

میرے سینئر رانا محمد سرور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ایک دن سرگودھا سے میرے بڑے بھائی نمبردار رانا نصیر احمدخاں جو سرگودھا سلانوالی چک نمبر 131 جنوبی میں والد صاحب کی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے، لاہور میرے گھر آئے ہوئے تھے۔ اگلے روز اْن کی ایک رِٹ پٹیشن ہائی کورٹ لاہور میں لگی ہوئی تھی، وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے وکیل رانا محمد سرور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے آفس لے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم بیان جاری کر دیا

سرور ایڈووکیٹ کا کام کرنے کا طریقہ

رانا سرور ایڈووکیٹ نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں، کس کے ساتھ کام کر رہے ہو؟ میرے بتانے پر انہوں نے مجھے کہاکہ آپ چاہیں تو میرے پاس آ جائیے میرا ہاتھ بٹائیں۔ اْن کا کام کرنے کا طریقہ کار بہت عمدہ تھا اور وہ یونیورسٹی لاء کالج میں اْستاد بھی رہ چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی جارحیت پر پاکستان نے جوہری طاقت کے استعمال کا عندیہ دے دیا

کام کی روزمرہ کی روایات

میری سینئر رانا محمد سرور ایڈووکیٹ اگلے روز کے کیسوں کی تیاری روزانہ مغرب کے بعد 11 بجے رات تک کرتے تھے۔ وہ 2 بجے ہائی کورٹ سے فارغ ہونے کے بعد اپنی گاڑی اور ڈرائیور کے ساتھ اپنے گھر علامہ اقبال ٹاؤن تشریف لے جاتے تھے اور نماز مغرب کے بعد آفس آ کر اگلے دن کا کام شروع کرتے تھے جو رات 11 بجے تک جاری رہتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سوٹ کیس سے لڑکی کی لاش برآمد ہونے کا معاملہ، شوہر اور بھائی قاتل نکلا

کیس کی تیاری کا تجربہ

میں صبح 8 بجے اْن کے آفس اپنی گاڑی میں آتا تھا اور اْن کے ساتھ ہائی کورٹ چلا جاتا تھا۔ واپس آفس 2 بجے آتے تھے اور اگلے روز کی فائلیں نکلوا کر میں 2 گھنٹے تک کیسوں کی تیاری کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ ایران، اسرائیل تنازع پر اپنے مؤقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں: برطانوی میڈیا کا دعویٰ

پیشہ ورانہ ترقی

اپنے سینئر رانا سرور کے ساتھ کیونکہ مجھے روزانہ ہائی کورٹ جانا ہوتا تھا اس لیے اگلے ایک سال میں میرے تمام جاننے والے وکیل مجھے ہائی کورٹ کا وکیل کہنے لگ گئے۔ رانا سرور ایڈووکیٹ کی محبت و شفقت کے باعث میرا شمار جلد ہی اچھے وکیلوں میں ہونے لگ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے حکومتی بل کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے اور تحریک انصاف اس کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟

سپریم کورٹ کا لائسنس

1991ء میں 2 سال وکالت کے مکمل ہونے پر مجھے ہائی کورٹس کی وکالت کا لائسنس مل گیا اور 13 سال ہائی کورٹس میں کام کرنے کے بعد 2004ء میں سپریم کورٹ میں وکالت کرنے کا لائسنس ملا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلادیش کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پاکستان کے 16 رکنی اسکواڈ کا اعلان

دلچسپ واقعہ

سپریم کورٹ کا لائسنس حاصل کرنے کے ضمن میں ایک دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ ان دنوں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس افتخار محمد چودھری نے میرا انٹرویو لیتے وقت میرا سی وی دیکھنے کے بعد مجھ سے سوال کیا کہ فیملی پلاننگ کی ملازمت سے میں نے استعفیٰ دیا تھا یا کہ مجھے نکالا گیا تھا۔

اختتام

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...