ریل کی سیٹی جدائی اور ملن کا استعارہ بن گئی تھی، فجر سے ذرا پہلے دور کہیں جب بجتی تو دل میں عجب سا درد اٹھتا،کسی دوشیزہ کا کلیجہ آری کی طرح چیر دیتی ہوگی۔
مصنف کی تفصیلات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 287
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ اور ٹاؤٹ کی “لوّ سٹوری” میں اتار چڑھاؤ ضرور آتے ہیں جس سے ۔ ۔ ۔” اقرارالحسن بھی میدان میں آگئیں
دنیا کی گونج
دن تو آلام کا میلہ ہے سو کٹ جاتا ہے، بھیڑ بھاڑ اور دنیا داری کے شورو غل میں تو اس آنے جانے والی گاڑی کی سیٹی کی اتنی خبر ہی نہیں ہوتی تھی۔ تاہم رات گئے اور خصوصاً علیٰ الصبح بجنے والی ریل کی سیٹی تو ہر ایک کے دل میں بڑے درد جگا جاتی تھی۔ اس سویرے والی گاڑی کے حوالے سے لوک گیتوں، فلمی گانوں، شاعروں کے کلام اور خواتین کے افسانوں میں خوب تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض حسین اور دیگر کے حکومتی معاملات طے پا گئے، عبداللہ گل کا دعویٰ، عمر چیمہ کا بھی تبصرہ آگیا
بچپن کی یادیں
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں فجر سے ذرا پہلے دور کہیں جب یہ سیٹی بجتی تھی تو لمحے بھر کو آنکھ کھل جاتی تھی اور دل میں عجب سا درد اٹھتا تھا۔ نجانے اس وقت کتنے ہی بچھڑے ہوئے آپس میں مل جاتے ہوں گے اور کتنوں کو دور تک ہاتھ ہلاتے اپنے پیارے نظر آتے ہوں گے۔ ریل کی سیٹی اسی جدائی اور ملن کا ایک استعارہ بن گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: خصوصی اقتصادی زونز اور ٹیکنالوجی زونز کے لیے ٹیکس مراعات ختم کرنے کا فیصلہ
محبت کی سویرے والی گاڑی
رومانوی سے نام کی حامل ”سویرے والی گاڑی“ اہل دل اور اہل جنوں کے لیے اپنے اندر بڑے معنی سموئے ہوئے ہوتی تھی۔ تب ایک عام سا تاثر بنا ہوا تھا کہ گھروں سے بھاگ کر جانے والا محبت سے مغلوب جوڑا اپنے بسے بسائے ٹھکانوں سے رخصت ہو کر کسی انجانی منزل کی طرف روانہ ہونے کے لیے سویرے والی گاڑی کا ہی انتخاب اور انتظار کیا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: زیادہ طیارے رکھنے والے دنیا کے ٹاپ 10 ممالک کی فہرست جاری، پاکستان کتنے نمبر پر ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں۔
معصوم دیہاتی دوشیزہ
صبح صادق کے دھندلکے میں گھر چھوڑ کر نکلتی ہوئی معصوم سی دیہاتی دوشیزہ کے دل پر ناجانے کیا بیتتی ہو گی۔ وہ کس طرح اپنے خاندان کے پیار اور محبت کی بھاری سل سینے سے اتار پھینکتی ہوگی۔ اس کو یہ وسوسہ بھی کھائے جاتا ہے کہ اگر ویسا نہ ہو سکا جیسا سوچا تھا یا اس کے ایسا کرنے کے بعد کس کس طرح گاؤں میں اس کے آنسو بہاتے ہوئے بوڑھے والدین اور نظریں چْراتے ہوئے بھائی سب سے منہ چھپاتے پھریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان کا دریائے راوی کا دورہ
عشق اور خاندانی محبت
مگر وقتی طور پر محبت کا آیا ہوا اْبال ان سوچوں پر غالب آ جاتا ہے اور وہ ان "منفی" خیالات کو جھٹک کر اپنی سوچ کو مثبت ہی رکھتی ہے اور ویسا ہی کر گزرتی ہے جیسا کہ پیار محبت کے اس خطرناک کھیل میں ان دونوں کے بیچ پہلے سے طے ہو چکا ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: قضاء کا ذائقہ شیریں ہے شہد سے لوگو۔۔۔
دکھ اور جدائی
کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ آخری لمحوں میں دنیا داری اور خاندان والوں کی محبت اور والدین کی عزت اس نوخیز عشق پر غالب آ جاتی تو اس کے لڑکھڑاتے ہوئے قدم یکبار تھم جاتے اور وہ اپنی محبت سے مکھ موڑ کر واپس گھر کی طرف پلٹ جاتی۔
یہ بھی پڑھیں: حمیرہ اصغر کیس: اداکارہ سے ان کے آخری ایام میں کون کون رابطے میں رہا؟
وفاداری کے عہد
لیکن اگر یہ لوگ اپنے عہدو پیماں میں ثابت قدم رہتے تو جب یہ گاڑی ان کو لے کر وہاں سے نکلتی ہوگی تو کس طرح اس کی اداس اور الوداعی سیٹی دونوں کا کلیجہ کسی آری کی طرح چیر دیتی ہوگی۔ مستقبل کے ان دیکھے خدشات، گھر والوں سے بچھڑنے کا غم، رسوائیوں کا خوف، اور کبھی اس کا انجام سوچ کر وہ کانپ کانپ جاتے ہوں گے۔
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








