ہماری محبت نے خوشبو کی نرم حدوں کو چھو لیا
مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 23
یہ بھی پڑھیں: نئی نویلی دلہن دولہے کو چھوڑ کر فرار!
مصر میں اخوان المسلمون کے خلاف مہم
جن دنوں میں مصر گیا تھا تب وہاں اخوان المسلمون کے خلاف حکومت ایک بھرپور مہم چلا رہی تھی۔ وہاں کی خفیہ ایجنسیاں کسی بھی شخص کو اٹھا کر لے جاتی تھیں جو حلئے سے کٹر اور عملی مسلمان لگتا تھا۔ اسی وجہ سے سعودی عرب میں مقیم ہمارے باریش مصری دوست قاہرہ واپس جاتے وقت اپنی لمبی داڑھیاں منڈوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔ اس موقع پر کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ شرمندہ ہیں کہ سنت رسولؐ کی حفاظت نہ کر سکے، لیکن یہ ان کی مجبوری تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو قاہرہ ایئر پورٹ پر خفیہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے، جو ان کی ملازمت اور دوبارہ سعودی عرب میں واپسی کو تقریباً ناممکن بنا دیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایئر لائنز کے انتظامی مسائل ختم نہ ہوسکے، 4 پروازیں منسوخ اور متعدد تاخیر
ناشتہ کا تجربہ
میں ناشتے کے لئے نیچے تہہ خانے میں بنے ہوئے مطعم میں جا پہنچا۔ وہاں رکھی گئی اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے کچھ چن کر ٹرے میں رکھ لیا اور ارد گرد دیکھنے لگا تاکہ کوئی معقول سا شخص نظر آئے جس کے ساتھ بیٹھ سکوں۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم، سینیٹ میں حکومت کے پاس صرف ایک ووٹ کم ہے، نجی ٹی وی کا دعویٰ
پاکستانی نوجوان سے ملاقات
وہاں ایک میز پر پاکستانی حلئے کا ایک سانولا سا نوجوان بیٹھا نظر آیا۔ میں اس کے پاس پہنچا اور بیٹھنے کی اجازت طلب کی۔ اس نے خوش دلی سے مجھے خوش آمدید کہا۔ ہم دونوں نے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور فوراً ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔ وہ نوجوان راہول کھنہ تھا جو کہ دہلی سے کسی سرکاری کام کے سلسلے میں آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان جھگڑا قیام پاکستان کے آغاز سے چل رہا ہے، ترتیب بدل دی گئی کہ بنیادی جمہوریتوں کے ارکان صدر کو منتخب کریں
بزرگوں کی کہانی
ذرا بے تکلفی بڑھی تو اس نے اپنے بزرگوں کے بارے میں بتایا جو تقسیم ہند کے وقت راولپنڈی کے کسی نواحی گاؤں سے دہلی چلے گئے تھے۔ اس کے دادا ہمیشہ اپنے گاؤں کو یاد کر کے رویا کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: گیدڑ نے پنجرے میں بند درجنوں قیمتی پرندوں کو مار ڈالا
سیاسی گفتگو
ناشتہ مکمل ہونے تک ہمارے تعلقات بہت اچھے ہو چکے تھے۔ لیکن جیسے ہی اس نے کافی کا پیالہ ہاتھ میں تھاما تو اچانک اس کی گفتگو کا رخ بدل گیا۔ وہ پاکستان کی تخلیق کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنے لگا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کی بنیاد غلط رکھ گئی تھی۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ اگر تقسیم نہ ہوتی تو آج پاکستان اتنا پسماندہ نہ رہتا۔ میں نے بھی دیانتداری سے اپنے مؤقف کا دفاع کیا۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔