خواتین ہراسگی کیس: لاہور ہائیکورٹ نے صوبائی محتسب کا فیصلہ درست قرار دیدیا
لاہور ہائیکورٹ کا اہم فیصلہ
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائیکورٹ نے کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے ایک اہم مقدمے میں صوبائی محتسب پنجاب کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ڈائریکٹر مینجمنٹ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کو نوکری سے نکالنے کا اقدام درست قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: والدین سروائیکل کینسر کی ویکسین پر اعتماد کریں اور بچیوں کو لازمی طور پر لگوائیں: وزیر تعلیم پنجاب
ججز کا موقف
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق جسٹس راحیل کامران شیخ نے عمر شہزاد کی درخواست پر 17 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ خواتین اکثر عزت، خاندانی وقار اور سماجی دباؤ کے باعث ہراسگی کے واقعات کا فوری اظہار نہیں کرتیں، تاہم اس خاموشی کو رضامندی نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی اس بنیاد پر ان سے رپورٹ کرنے کا حق چھینا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہنی ٹریپ کے ذریعے نوجوانوں کا اغوا اور کچے کے ڈاکوؤں کی سہولت کار مشہور ٹک ٹاکر عروسہ سولنگی گرفتار
ہراساں کرنے کی حدود
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ کام کی جگہ پر ہراسگی کی حدود صرف آفس بلڈنگ تک محدود نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی افسر اپنے عہدے یا اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے خاتون کو دھمکائے یا ناجائز تعلقات پر مجبور کرے تو یہ بھی ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی سے متعلق بھارتی سیکریٹری خارجہ کا بیان سامنے آگیا
شکایت کنندہ کی گواہی
عدالت کے مطابق شکایت کنندہ خاتون ٹیچر نے الزام عائد کیا کہ درخواست گزار اسے غلط نظروں سے دیکھتا، ناجائز تعلقات کیلئے پیغامات بھیجتا اور انکار پر نوکری ختم کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۔ خاتون کے مطابق ستمبر 2022 میں درخواست گزار اس کے گھر آیا اور زبردستی زیادتی کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف نے فیلڈ مارشل کی ملاقات سے متعلق کوئی سوال نہیں اٹھائے: رؤف حسن
مدعی کا دفاع
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ واقعہ کام کی جگہ پر پیش نہیں آیا اور شکایت ذاتی رنجش کا نتیجہ ہے، تاہم عدالت نے قرار دیا کہ یہ الزامات اختیارات کے غلط استعمال کے زمرے میں آتے ہیں، شکایت کنندہ کے کردار پر سوال اٹھانا درخواست گزار کے طرزِ عمل کو جواز فراہم نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں: خورشید شاہ کی طبیعت ناساز، سکھر سے کراچی کے ہسپتال منتقل کردیا گیا
فوجداری کارروائی اور محتسب
عدالت نے یہ اعتراض بھی مسترد کر دیا کہ فوجداری کارروائی کی موجودگی میں محتسب کارروائی نہیں کر سکتا اور واضح کیا کہ محتسب پنجاب کا دائرہ کار نظم و ضبط سے متعلق ہے جبکہ فوجداری مقدمہ الگ عمل ہے۔
نتائج
لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ محتسب پنجاب اور گورنر کے فیصلوں میں کوئی قانونی سقم موجود نہیں اور درخواست گزار کی نوکری بحالی کی استدعا مسترد کر دی۔








