شام کی جنگ میں اسرائیل کا چیلنج: کیا بشار الاسد کی کمزور حکومت کی حفاظت کرے یا باغیوں کا نیا خطرہ مول لے؟
شامی تنازعے میں شدت آنے کے بعد اسرائیل نے ایک بار پھر صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت یا مخالفت کرنے کے حوالے سے اپنی غیر واضح حکمت عملی پر نظرثانی کی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اپنے ہمسایہ ملک میں بدلتی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دو اعلیٰ سطح کے اجلاس بلائے ہیں جبکہ گولان کی پہاڑیوں پر ممکنہ سیکورٹی خطرے کے پیش نظر اسرائیلی فوج ہائی الرٹ پر ہے۔ گولان کی پہاڑیاں جنوب مغربی شام میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقہ ہے۔
شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے ہی اسرائیل اس میں کافی متحرک طور پر شامل رہا ہے اور اس نے سنہ 2015 سے ان اہداف کے خلاف فضائی حملے شروع کیے جو شام اور لبنان دونوں میں ایران اور حزب اللہ سے منسلک سمجھے جاتے ہیں۔
اس سے قبل اسرائیل نے خفیہ طور پر ان گروہوں کی مدد اور حمایت کی تھی جو اسرائیل شام سرحد پر شامی فوج کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اسرائیلی میڈیا اور حکام کی جانب سے بعدازاں کیے جانے والے انکشاف کے مطابق اس اسرائیلی حمایت میں ان گروہوں کے لیے طبی امداد، خوراک، عسکری تربیت، اسلحہ کی فراہمی شامل تھی۔
شام میں حیات تحریر الشام کی زیر قیادت باغی جنگجوؤں کی تیزی سے پیش قدمی اور حساس علاقوں پر ان کے قبضے نے اسرائیل کو شام کے حوالے سے اپنی سیاسی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور کیا ہے۔
اسرائیل کے لیے اس وقت مشکل یہ ہے کہ کیا اسرائیل کو ان مخالف قوتوں اور ان کے مقاصد کی حمایت کرنی چاہیے جو ایران اور حزب اللہ کے خلاف مل کر لڑ رہے ہیں اور ان کے مفادات کے ساتھ اپنے مفادات کو جوڑ لے؟ یا اسے شامی حکومت کے تسلسل کو ترجیح دینی چاہیے، جو ایران کو شام میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی اجازت دیتی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ کئی دہائیوں سے بشارالاسد کی حکومت اسرائیل کے لیے براہ راست کوئی خطرہ نہیں رہی ہے؟
اسرائیل کے لیے ’بڑھتا خطرہ‘
اسرائیلی ملٹری انٹیلجنس کے 8200 یونٹ کے سابق سربراہ حنان گیفن نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شام کی صورتحال میں ’اسرائیل کے لیے مسلسل خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘
گیفن نے شام کو حزب اللہ کی کارروائیوں کے لیے ایک ’زرخیز زمین‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں اس تنظیم کے اسحلہ بنانے کے کارخانے موجود ہیں جہاں وہ میزائل اور ڈرونز جیسا جدید اسحلہ تیار کر رہا ہے۔
انھوں نے اپنے مؤقف کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ دمشق کا کنٹرول باغی گروپوں کے ہاتھ میں جانے کے مقابلے میں بشارالاسد کی حکومت کا کمزور ہونا اور اس کے ساتھ ایرانی اثرورسوخ کا محدود ہونا، سیاسی طور پر اسرائیل کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔
اسرائیلی عسکری ماہر کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں علاقائی اور بین الاقوامی مداخلتوں کے پیش نظر بشارالاسد کے کم ہوئے اثر و رسوخ اور اختیار کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
انھوں نے شام میں شدت پسند گروپوں کے اقتدار میں آنے کے بارے میں اسرائیل کے خدشات کو بھی تسلیم کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو حیات تحریر الشام جیسے باغی گروپوں سے نئے خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حیات تحریر الشام کو امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے ان کے سخت گیر اور انتہا پسند نظریات کے باعث دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سرحدوں پر ایسے گروہوں کی موجودگی مستقبل میں اسرائیل کے لیے مزید خطرہ پیدا کر سکتی ہے۔‘
حیات تحریر الشام کی بنیاد سنہ 2011 میں ایک مختلف نام جبھتہ النصریٰ سے رکھی گئی تھی جو براہ راست القاعدہ سے منسلک تنظیم تھی۔
شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے سربراہ ابو بکر البغدادی بھی اسے بنانے میں شریک تھے۔
اس تنظیم کو شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف سرگرم گروپوں میں سب سے زیادہ مؤثر اور مہلک سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں جہاں ہر شہری کو مساوی مواقع، انصاف اور عزت حاصل ہو: وزیر اعلیٰ پنجاب
’وہ شیطان جسے ہم جانتے ہیں‘
شامی امور کے ماہر اور تل ابیب یونیورسٹی کے نائب صدر پروفیسر ایال زیسر نے شمال میں شامی فوج کی حالیہ تباہی کو ایک سٹریٹجک موڑ قرار دیا ہے۔
زیسر نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ سنہ 2000 میں جب سے بشارالاسد نے اقتدار سنبھالا ہے اسرائیل اس کا عادی ہو گیا ہے، کیونکہ شامی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ سرحدوں پر خاموشی یا امن برقرار رکھا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ امن اسرائیل کے لیے فائدہ مند تھا کیونکہ اسے شامی حکومت کی جانب سے اسرائیل فضائی حملوں کے جواب میں کسی عسکری مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘
اسرائیل میں چند سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کا تسلسل جاری رہنا اسرائیل کے لیے بہتر ہے کیونکہ ’یہ وہ شیطان ہے جسے ہم جانتے ہیں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کا تسلسل خطے میں استحکام کو تقویت دے گا۔ تاہم کچھ دیگر مبصرین کے خیال میں خصوصاً ایران اور حزب اللہ کے خطے میں کم ہوتے اثر رسوخ کے تناظر میں باغی گروپوں کی حمایت کرنا اسرائیل کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان نے پاکستان کو شکست دے کر انڈر 19 سیریز اپنے نام کر لی
’شام میں ٹوٹ پھوٹ اسد کی حکومت سے بہتر ہے‘
اسرائیلی عسکری ماہر حنان گیفن کا کہنا ہے کہ 'میں شام میں ایک ایسی حکومت کی مسلسل حکمرانی جس کی افادیت ختم ہو چکی ہے کے مقابلے میں شام میں ٹوٹ پھوٹ کو ترجیح دوں گا۔'
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل گزرے وقت کے ساتھ شام میں رونما ہونے والی نئی حقیقتوں کے ساتھ ڈھلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گذشتہ چار سالوں میں شام کی جنگ ختم ہو گئی ہو۔
اب تک ملک کے بڑے شہروں میں بشار الاسد کی حکمرانی بلا مقابلہ تھی، حالانکہ شام کے کچھ دوسرے حصے ان کے براہ راست کنٹرول سے باہر ہیں۔
گیفن مزید کہتے ہیں کہ شام کی خانہ جنگی طویل مدت تک جاری رہ سکتی ہے، جس سے اسرائیل کو صورتحال کا بغور جائزہ لینے اور متبادل حکمت عملی تیار کرنے کا وقت مل سکتا ہے۔
وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شام میں باغی گروپوں کی پیش قدمی اسرائیل کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے، لیکن وہ بالآخر ایک ایسی حکومت کے مقابلے میں زیادہ سازگار اتحادی ہو سکتی ہے جو حزب اللہ کو ایران سے ہتھیاروں کی نقل حمل کے لیے شام کو ایک اہم ٹرانسپورٹ روٹ کے طور پر کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
’باغیوں کی حمایت کرنا کوئی آپشن نہیں‘
اگرچہ اسرائیل نے ماضی میں کچھ باغی دھڑوں کی حمایت کی ہے مگر زیسر کا خیال ہے کہ 'اس وقت باغی گروہوں کی براہ راست حمایت ایک قابل عمل آپشن نہیں ہے۔' خاص طور پر شمالی شام میں جہاں مسلح گروپ ترکی کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں۔ ایک اور اسلامی ریاست جس کے اسرائیل کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل شامی حکومت کی براہ راست کوئی حمایت نہیں کر رہا مگر یہ اب بھی ایرانی اثر و رسوخ کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اسرائیل شام میں ایرانی جہازوں کو اترنے سے روک کر یا ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی عراق کے ذریعے نقل و حرکت کو روک کر ایسا کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سب میں ایک بات یہ بھی ہے کہ روس بھی بشارالاسد کا ایک اہم اتحادی ہے۔
زیسر اس بارے میں تنبیہ دیتے ہیں کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے دوبارہ سامنے آنے پر اسرائیل اور شامی حکومت دونوں کے لیے سنگین خطرات جنم لے سکتے ہیں۔
ماضی میں اسلام پسند گروہ پر فتح حاصل کرنے کے لیے بشارالاسد تنہا ملک کی کم لیس اور کمزور حوصلے والی فوج پر انحصار نہیں کر سکتے تھے۔ جو جلد ہی خطرناک حد تک کمزور پڑ گئی اور باغی گروہوں کے حملوں کے خلاف باقاعدہ مزاحمت کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
اس لیے انھوں نے روس کی فضائی طاقت اور زمین پر ایرانی فوجی مدد پر بہت زیادہ انحصار کیا تھا۔ جس میں تہران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ بھی شامل تھی۔
زیسر کہتے ہیں کہ اسرائیل کا شام میں کسی بھی فریق کی حمایت کرتے ہوئے مکمل جنگ شروع کرنے کا امکان نہیں ہے، لیکن وہ ایران سے منسلک فوجی اہداف کے خلاف محدود کارروائیاں جاری رکھے گا۔
اسرائیل میں بشارالاسد کے مستقبل کے بارے میں بحث ایک وسیع جغرافیائی سیاسی کسوٹی کی مانند ہے جس میں سب سے اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا اسرائیل علاقائی استحکام کو ترجیح دیتا ہے، چاہے اس کا مطلب اسد جیسی حکومت کے ساتھ کام کرنا ہو، یا کیا وہ تبدیلی کی قوتوں کی حمایت کا انتخاب کرتا ہے، چاہے اس سے خطے میں زیادہ عدم استحکام ہی پیدا کیوں نہ ہو؟
جیسے جیسے شام کی صورت حال بدلتی جا رہی ہے، اسرائیل کو اس پیچیدہ صورتحال کا بغور جائزہ لینا ہو گا، اسرائیل کو اپنے طویل مدتی سٹریٹیجک مفادات کو شام کے بدلتے ہوئے منظر نامے سے پیدا ہونے والے فوری سکیورٹی خدشات کے ساتھ متوازن رکھنا ہو گا۔