گاڑی کے رکتے ہی انجن علیٰحدہ ہو کر کسی روٹھے محبوب کی طرح پلیٹ فارم سے نکل کر دور کہیں دھند میں گم ہو جاتا ہے، اتنا دور کہ نظر آنا بھی بند ہو جاتا ہے۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 106

یہ بھی پڑھیں: کے پی کے عوام کو لائف انشورنس فراہم کرنے کا انقلابی منصوبہ منظور کیا ہے: بیرسٹر سیف

بڑے اسٹیشن کی رونق

بڑے اسٹیشن سے اکثر اوقات اضافی ڈبے پیچھے سے آئی ہوئی ریل گاڑی سے جوڑے جاتے ہیں۔ جیسے راولپنڈی یا پشاور سے کراچی جانے والی گاڑی جب لاہور پہنچتی ہے تو اس کے ساتھ براہ راست لاہور سے کراچی تک جانے کے لیے اضافی ڈبے لگتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر ان کے ملن کا یہ ایک خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔

گاڑی کے رکتے ہی انجن علیٰحدہ ہو کر کسی روٹھے ہوئے محبوب کی طرح پلیٹ فارم سے نکل کر دور کہیں جا کر دھند میں گم ہو جاتا ہے، اتنا دور کہ نظر آنا بھی بند ہو جاتا ہے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد وہ نئی نویلی دلہن کی طرح نہائے دھوئے ہوئے ڈبوں کے ریک کو دھکیلتا ہوا الٹے قدموں مگر بڑے محتاط انداز میں اپنی پرانی گاڑی کی طرف بڑھتا ہے اور آہستگی سے انھیں پہلے سے کھڑی ہوئی گاڑی سے لا ٹکراتا ہے۔

وہاں موجود ملازم نیچے اتر کر پیار کی اس زنجیر کو آپس میں کس کے باندھ دیتا ہے، اور یوں پیچھے سے آئی ہوئی دس ڈبوں والی گاڑی اب پندرہ یا سولہ کی بن کر آگے بڑھ جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کوہلی 10 سال قبل دورہ آسٹریلیا پر کِس گرل فرینڈ کو لیکر گئے تھے؟ روی شاستری کا اہم انکشاف

چھوٹے اسٹیشن کا منظر

چھوٹے اسٹیشن پر یہ پلیٹ فارم طویل مگر ویران اور بلند سا اینٹوں کا بنا ہوا ایک چبوترہ ہوتا ہے جو کچھ دور تک تو پٹری کے ساتھ چلتا ہے پھر تھوڑی سی ڈھلوان لے کر زمین کی سطح تک آکر ختم ہو جاتا ہے، لیکن ڈھلنے سے پہلے وہ گاڑی میں بیٹھے مسافروں کو ایک بڑے اور نمایاں تختہ رہنمائی کے ذریعے یہ بتانا نہیں بھولتا کہ وہ کس اسٹیشن کو الوداع کہہ رہے ہیں۔

اس پلیٹ فارم کے عین وسط میں ایک چھوٹا سا ٹکٹ گھر، ایک ویران سا مسافر خانہ، اور اسٹیشن ماسٹر کے دفتر کے علاوہ دو تین ریلوے ملازم، ایک دو خوانچے والے، کونے کھدروں میں سوئے ہوئے چند قلی اور نیم کے اکلوتے درخت پر بیٹھے بہت سارے کوے کائیں کائیں کرتے نظر آتے ہیں۔

گاڑی کے آنے سے ذرا ہی قبل اسٹیشن ماسٹر ٹکٹ گھر کی کھڑکی کھولتا اور منتظر مسافروں کو ٹکٹ دے کر باہر نکلتا اور پوائنٹ مین کو سگنل ڈاؤن کرنے کا اشارہ کردیتا تھا۔

اتنے چھوٹے اسٹیشن پر عام سی پسنجر کاڑیاں ہی ٹھہرتی ہیں جو دو تین منٹ رک کر آگے بڑھ جاتی ہیں ورنہ میل یا ایکسپرس گاڑیاں تو ایسے چھوٹے موٹے اسٹیشنوں کی طرف دیکھنا بھی گورا نہیں کرتی ہیں، اور اس کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک زور دار وسل بجا کر دھول اڑاتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔

تاہم ایسے موقعوں پر بھی اسٹیشن ماسٹر سبز اور سرخ جھنڈی لے کر پلیٹ فارم پر نکل آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور ملازم بھی اس اسٹیشن سے اگلے تک کی لائن خالی ہونے کا تصدیق نامہ یعنی ٹوکن ایک آنکڑے میں پھنسا کر اسسٹنٹ ڈرائیور کو تھما دیتا تھا۔ جب تک گاڑی اس کے اسٹیشن سے باہر نہ نکل جاتی اسٹیشن ماسٹر سبز جھنڈی لہراتا رہتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خدشہ ہے 190ملین پاؤنڈکیس میں عمران خان کو 14سال قیدکی سزا ہوگی: شیر افضل مروت

(جاری ہے)

نوٹ:

یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...