درمیانی مشورے سے طے پایا کہ دریا کے نیچے سے سرنگ نکالی جائے، کھدائی کا کام شروع ہوا، اچانک پانی ٹپکنا شروع ہو گیا اور پھر مقدار بڑھتی ہی چلی گئی۔

مصنف کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 157
یہ بھی پڑھیں: کمپنی کا ویڈیو کالنگ کے لیے استعمال ہونے والا معروف سافٹ ویئر آج سے بند کرنے کا اعلان
دریا کو عبور کرنے کے طریقے
اس سے پہلے وہاں دریا کو موثر طور پر عبور کرنے کے لیے تفصیلی سروے ہو چکا تھا۔ جس میں مندرجہ ذیل 3 طریقوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کی سفارش کی گئی تھی:
- پہلا یہ کہ دریا کو حسب سابق کشتیوں کے ذریعے عبور کیا جائے یعنی سردیوں میں کشتیوں کا پْل اور گرمیوں میں بڑی کشتیوں کے ذریعے۔
- دوسری سفارش یہ کی گئی تھی کہ وہاں ایک فولادی کمانی دار یا معلق پْل بنایا جا سکتا تھا جو ریل گاڑی اور دوسرے لوگوں کو پار لگانے کے لیے استعمال ہوسکے۔
- ایک تیسری اور نرالی ترکیب یہ پیش کی گئی تھی کہ یہاں پر دونوں کناروں کے درمیان ایک زیر زمین گہری سرنگ بنائی جائے جو دریا کے ایک کنارے سے شروع ہو کر دوسرے پر جا نکلے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد سے کراچی کی پرواز بم کی جھوٹی اطلاع پر روک لی گئی، مذاق پر 2 مسافر گرفتار
پُل کے ڈیزائن کا فیصلہ
اس بحث و مباحثے کے دوران پْل کے جو 2 ڈیزائن پیش کیے گئے تھے وہ مسترد کردیئے گئے۔ کشتیاں تو پہلے سے ہی موجود تھیں اور یہ کوئی اس مسئلے کا پائیدار حل بھی نہیں تھا۔ باہمی صلاح مشورے سے یہ طے پایا کہ عملی طور پر سب سے بہترین اور سستا طریقہ یہی ہے کہ دریا کے نیچے سے ایک وسیع سرنگ نکالی جائے جس میں سے ریل گاڑی اور لوگوں کے پیدل گزرنے کی سہولت ہو۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ کی بندش، پی ٹی آئی کا سخت ردعمل سامنے آگیا
سرنگ کی تعمیر کی شروعات
غرض سرکار کی طرف سے اس کی منظوری ہوئی اور 1860ء میں اس پر کام کا آغاز بھی ہو گیا۔ اس سلسلے میں حکومت نے فوری طور پر خزانے سے 10 ہزار روپے بھی جاری کردیئے۔ پھر ایک جوش اور ولولے کے ساتھ سرنگ کی کھدائی کا کام شروع ہوا اور تعمیراتی عملہ سرنگ بناتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: علیزے شاہ نے اپنی ایک اور بولڈ ویڈیو جاری کردی
مسائل و چیلنجز
کچھ آگے چل کر، جب مزدور اور کاریگر کامیابی سے کھدائی کرتے ہوئے جا رہے تھے تو اچانک سرنگ کی چھت سے پانی ٹپکنا شروع ہو گیا اور پھر اس کی مقدار بڑھتی ہی چلی گئی۔ جس کی وجہ سے کمپنی نے فوری طور پر کام کو روک کر مرمت کے لیے اضافی وقت کے ساتھ رقم کی بھی مانگ کی جو انھیں مل گئی۔ مرمت کی کوشش گئی لیکن اس کے باوجود بھی پانی کے رسنے کا یہ عمل نہ رک سکا۔
تعمیراتی کمپنی کو ایک بار پھر اس امید پر مزید پیسے ادا کیے گئے کہ شاید اس بار وہ اس مشکل پر قابو پالیں مگر کچھ بھی فائدہ نہ ہوا، حتی کہ حکومت اس منصوبے پر، جو محض 10 ہزار روپے سے شروع ہوا تھا، 60 ہزار روپے لگا چکی تھی جو ان وقتوں میں ایک خطیر رقم تصور ہوتی تھی۔ کام کو اب ادھورا چھوڑنا بھی ممکن نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ داخلہ پنجاب نے قیدیوں کیلئے ماہرین نفسیات کے ایس او پیز جاری کر دیئے
کام کا توقف اور اختتام
پھر 1862ء میں سرنگ کی کھدائی کرنے والی مشین کا کوئی اہم کل پرزہ ٹوٹنے سے ایک بڑی خرابی پیدا ہو گئی جس کو ٹھیک کروانے کے لیے کافی رقم درکار تھی، کیوں کہ اس کو برطانیہ بھیجا جانا ضروری تھا۔ جب یہ حادثہ ہوا تو دوسرا کنارہ وہاں سے محض 258 فٹ دور رہ گیا تھا۔
جب حالات قابو سے باہر ہو گئے تو حکومت نے سرنگ کے اس منصوبے کو ہی غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا اور یوں یہ کام وقتی طور پر بند ہوگیا۔ بعد ازاں اس سرنگ کو بھی بند کردیا گیا۔ اتنی محنت، پیسہ اور وقت کا زیاں ہونے کے باوجود مسئلہ پھر بھی جوں کا توں ہی رہا تھا، جس کا سب کو ہی بہت رنج تھا۔ دل برداشتہ ہو کر منصوبہ سازوں نے اسے مستقل بند کرنے کی سفارش کر دی۔ اور یوں شمال کا یہ محاذ خاموش ہوگیا۔
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔