خاموش ہوئی وہ زبان، جسے گفتگو میں کمال تھا
زبیدہ مصطفیٰ: ایک شاندار صحافی اور مصنفہ
زُبیدہ مصطفیٰ صاحبہ (زُبیدہ آپا) کی شخصیت بطورِ صحافی اور مصنّفہ کے لائقِ ستائش تو تھی ہی، اُن کا منفرد اور شگفتہ اندازِ تکلّم بھی دلوں کو موہ لیتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یو اے ای کا 5 سالہ سیاحتی ویزا اب پاکستانیوں کیلئے دستیاب، ویزا کیسے ملے گا؟
پروگرام کی یادیں
زبیدہ آپا کے انتقال کی خبر سُن کر ذہن میں وہ مناظر اُمڈ آئے، جب میں اربن ریسورس سینٹر (یو آر سی) کراچی میں ایک آگاہی پروگرام میں شریک تھا۔ زبیدہ آپا اُس پروگرام میں بحیثیتِ مہمان شریک تھیں اور موضوعِ پروگرام پر اپنے خیالات، تجربات اور رائے کا اظہار کر رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد کالج فار بوائز میں 16 اپریل کو بنگلہ دیش کے نامور سابق سفیر ایم مجارالقیس کی یاد میں خصوصی تقریب
مہذب اندازِ گفتگو
شفیق لہجہ، قائدے قرینے سے آراستہ مہذب اندازِ گفتگو، اور اپنی بات سمجھانے کے خوبصورت انداز نے شرکائے محفل پر اپنا ایک اثر قائم کر رکھا تھا۔ حاضرینِ پروگرام اُنہیں نہ صرف توجہ سے سُن رہے تھے بلکہ اُن کے اندازِ گفتگو سے محظوظ بھی ہو رہے تھے۔ عام طور پر ایسا دیکھنے میں نہیں آتا، اکثر و بیشتر پروگراموں میں لوگ ایک وقت تک مقررین کو سنتے ہیں، اور پھر مزید گزرتا وقت توجہ اور یکسوئی کا وہ معیار برقرار نہیں رکھ پاتا۔ لیکن کمال بات تھی کہ زبیدہ آپا کے سامعین وقت گزرنے کے احساس سے عاری نظر آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پنجاب میں بچوں کی جبری مشقت کے خاتمے کے لیے سٹیرنگ کمیٹی تشکیل دیدی
تعلیم و تربیت پر گفتگو
پروگرام کے آخر میں اُن سے گفتگو کا موقع میسر آیا تو زبیدہ آپا کی کافی باتوں میں تعلیم، تربیت، آگاہی اور شعور کے حوالے شامل رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی جانب سے قندھار اور کابل میں فتنہ الخوارج کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ کارروائی، سیکیورٹی ذرائع
زبیدہ آپا کا انمول وجود
"کیا آپ کا تعلق لکھنؤ سے ہے؟" وہ گفتگو میں خود کے لیے "میں" کے بجائے "ہم" کا صیغہ استعمال کر رہی تھیں، تو میرے سوالوں میں ایک سوال یہ بھی تھا، جس کا انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔
زبیدہ آپا جیسی شخصیت کو بھُولنا مشکل ہوگا۔ دعا ہے کہ وہ غریقِ رحمت ہوں۔
نوٹ
یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔








