نام نہیں بکتے، صرف جیت ہی فروخت کی جا سکتی ہے
راتوں رات جذباتی فیصلوں کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوششیں اگرچہ پاکستانی کرکٹ کے لیے کوئی نئی بات نہیں، مگر پچھلے ہفتے پی سی بی کا جواب اپنے گزشتہ معیار سے بھی "کچھ زیادہ ہو گیا۔"
کوئی بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ پہلے میچ کی استعمال شدہ پچ پر دوبارہ کھیلنے اور پچ کے ارد گرد سے گھاس کاٹنے کے بعد تین اسپنرز اور صرف ایک تیز بولر کے ساتھ کھیلنا کیسے مؤثر ہوگا۔
ادھر رمیز راجہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اگر بابر اعظم نہیں تو پھر پاکستانی کرکٹ کے پاس بیچنے کے لیے کیا ہے؟
ٹی وی پروڈکشن کے طور پر، کرکٹ کو بھی کاروباری مجبوری ہے کہ اسے ایسے پُرکشش نام درکار رہتے ہیں جو شائقین کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں اور اتنی ریٹنگ لائیں کہ براڈکاسٹرز کے لیے نشریاتی حقوق خریدنے اور اسپانسرز کے لیے سرمایہ کاری کرنے کے مواقع پیدا ہوں۔
رمیز راجہ کا خیال تھا کہ اپنی تاریخ کے بدترین نتائج بھگتتی ٹیم کو اپنے تین مقبول کھلاڑیوں کو ڈراپ نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے نزدیک ان ہی کے دم قدم سے کچھ رونق باقی تھی اور یہ کہ پہلے سے مایوس اسپانسرز اب ستاروں سے محروم اس کرکٹ ٹیم پر سرمایہ کاری کرنے سے ہاتھ کھینچنے لگیں گے۔
مگر پاکستان کا منہ ایک بھیانک حقیقت میں چڑا رہا تھا کہ اپنے ہوم گراؤنڈز پر چار سال سے کوئی ٹیسٹ نہ جیت پانا وہ مظہر ہے جو نوآموز ٹیموں کے لیے بھی قابلِ توجیہہ نہیں ہے، کہ پاکستان جیسی ٹیم اس ریکارڈ کی مالک بنتی ہے جس کی تاریخ زرخیز کرکٹ کلچر سے بھری پڑی ہے۔
ایسے میں یہ ردِعمل آنا فطری بھی تھا اور عین ضروری بھی تھا کہ پورے بولنگ اٹیک کو جھاڑ پھونک کر پرے کیا جائے اور 20 وکٹیں حاصل کرنے کے لیے ایک نیا فارمولہ آزمایا جائے، جس کی کامیابی کی مثالیں ماضی قریب میں موجود بھی تھیں۔
ایک لحاظ سے پاکستان کرکٹ کا بھی قصور نہیں کہ اسپن پچز پر اس کی فتوحات کو مبصرین زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے اور دلیل ہمیشہ یہیں اٹکی رہ جاتی ہے کہ جب آسٹریلیا میں جیت کر دکھائیں گے تو ہی انھیں ٹیم مانا جائے گا۔
یہ آسٹریلیا میں جیتنے کا دہائیوں پرانا خواب ہی ہے کہ اپنے ہوم گراؤنڈز پر پاکستان اپنی کوئی واضح کرکٹنگ شناخت بنا پانے سے معذور رہا ہے۔ چونکہ آسٹریلیا میں جیتنے کے لیے پیس اور باؤنس واحد ہتھیار ہوتے ہیں، سو برس ہا برس پاکستان یہ دونوں ہتھیار حاصل کرنے کے لیے گرین پچیں بنانے کے ناکام تجربات کرتا آیا ہے۔
گرین پچیں اپنے مزاج میں خاصی حساس ہوتی ہیں کہ ذرا سی تیز دھوپ لگ جانے پر ساری گھاس راکھ ہو جاتی ہے اور ’کلے‘ سے بندھی مٹی کا مؤثر باؤنس بیٹنگ کے لیے سازگار ترین حالات پیدا کر دیتا ہے۔
پاکستان جہاں سال کے گیارہ مہینے سورج خوب چمکتا ہے، ایسی پچ بنانا نہایت دشوار ہے۔
پاکستان کی یہ ناکام کوششیں ہمیشہ نہ صرف مہمان ٹیموں کے پیسرز کے لیے خوشی کا سامان رہی ہیں بلکہ ان کے بلے بازوں کو بھی اپنے تربیت شدہ ریفلکسز میں کوئی تبدیلی لائے بغیر طویل اننگز کھیلنے کے مواقع فراہم کرتی رہی ہیں۔
اس سب تاریخ کے بعد بالآخر پچھلے ہفتے کے وہ فیصلے ناگزیر تھے جنھیں اس میچ کے آغاز پر حادثاتی ردِ عمل کہا گیا تھا۔
ساجد خان اور نعمان علی جیسے مشاق سپنرز کی جارحیت اور استعمال شدہ پچ کے دھیمے باؤنس نے انگلش بلے بازوں کو راتوں رات اس تکنیک سے نکلنے پر مجبور کیا جو ان کے ریفلیکسز کی بنیادی ٹریننگ تھی۔
اولی پوپ کی وکٹ اس کی عمدہ ترین مثال تھی جو دو اذہان میں بٹے یہ طے نہ کر پائے کہ سویپ کھیلیں یا ڈرائیو کریں اور بالآخر جو شاٹ ان کے بلے سے نکلی، وہ نہ تو سویپ بن پائی اور نہ ہی ڈرائیو۔
یہ جیت اس پاکستانی ڈریسنگ روم کے لیے بہت ضروری تھی جسے، اپنے نئے کپتان کے تحت بھی ہارتے ہوئے ایک برس ہونے کو تھا اور جسے اپنے ہوم گراؤنڈز پر ٹیسٹ کرکٹ میں فتح کا ذائقہ چکھے چار برس ہونے کو تھے۔
یہ جیت ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی کے لیے بھی ضروری تھی کہ جب سے وہ پاکستان کرکٹ سے وابستہ ہوئے ہیں، کوئی سکھ کا سانس نہیں لے پائے مگر اب وہ مسکرا سکتے ہیں کہ بطور کوچ ان کی ٹیم نے پہلی جیت رقم کی اور چار سالہ پستی سے باہر نکلنے کو پہلا قدم رکھا۔
اور اگرچہ بعض مبصرین کے لیے یہ جیت اتنی اہم نہیں کیونکہ اس کے حصول میں کسی نوجوان پیسر کی ’سیکسی‘ فاسٹ بولنگ دیکھنے کو نہیں ملی مگر دو تجربہ کار پاکستانی سپنرز نے سابق چیئرمین پی سی بی پر بھی یہ واضح کر دیا کہ بیچنے کے لیے نام نہیں، صرف جیت درکار ہوتی ہے۔