میں نے زندگی کی بہت بڑی غلطی کی تھی، ریاضی کبھی پسند نہ تھا اور شماریات کا مضمون رکھ کر رجحانِ طبع کے خلاف فیصلہ کیا تھا

مصنف:
رانا امیر احمد خاں
یہ بھی پڑھیں: 2025 میں یورپ میں تباہ کن جنگ ہو گی اور آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوگی، زوال اور تباہی کا عمل آئندہ برس شروع، بابا وانگا کی پیشنگوئی سامنے آگئی
قسط: 49
یہ بھی پڑھیں: نصب العین عدل و انصاف پر مبنی ریاست کی تعمیر و ترقی تھا، وکلاء برادری کو غیر سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
ڈاکٹر انوار احمد بگوی کا تعارف
ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی: گورنمنٹ کالج کوارڈینگل ہاسٹل میں راقم سے ایک سال پیچھے تھے اور کلاس فیلو نہ ہونے کی بنا ء پر اْن سے انٹرایکشن بہت مختصر رہا، لیکن مجھے وہ 70 سال پہلے بھی بہت اچھے لگے تھے۔ بعد ازاں عملی زندگی میں اْن سے جب بھی ملاقات ہوئی اْنھیں ایک شفاف، خوبصورت انسان پایا۔
ڈاکٹر انوار بگوی صاحب گورمنٹ کالج لاہور سے ایف ایسی پری میڈیکل کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے دوران رسالہ ”کیمکول“ کے مدیر رہے۔ انتظامی امور میں پوسٹ گریجوایشن کے بعد پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں مختلف اعلیٰ مناصب پر خدمات انجام دیں اور بطور ایڈوائزر ہیلتھ ٹیکنیکل ریٹائرڈ ہوئے۔ ڈاکٹر انوار احمد بْگوی درجن بھر علمی، تاریخی اور سفر ناموں کے مصنف ہیں۔ حال ہی میں وہ منصورہ ٹیچنگ لاہور سے بطور چیف ایگزیکٹو ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ایک مختصر عرصہ کے لیے وہ عبوری طور پر سٹیزن کونسل آف پاکستان کے قائم مقام جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: بولان میڈیکل کمپلیکس میں 4 ارب 15کروڑ روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
ہائیکنگ کے تجربات
اسلامیہ کالج سول لائن کے پروفیسر عبدالحمید قراقرم ہائیکنگ کلب کے صدر تھے اور ہائیکنگ اْستاد کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ ہر سال ایک 40 میل کی ہائیک طلباء کو کرواتے تھے۔
ان کیساتھ ہم نے ایک چالیس میل لمبی ہائیک گورنمنٹ کالج لاہور سے لیکر ٹھوکر نیاز بیگ تک اور واپس گورنمنٹ کالج تک کی۔ ایک دوسری ہائیک پیدل مارچ گورنمنٹ کالج لاہور سے واہگہ بارڈر تک اور واپسی دریائے راوی کے کنارے کنارے ہوتے ہوئے گورنمنٹ کالج تک میں حصہ لیا۔
ایک تیسری (60) ساٹھ میل لمبی ہائیک ہم 5 دوستوں جاوید مشرف، غلام دستگیر میرے سمیت مری سے بھوربن اور بھوربن سے براستہ نتھیا گلی، ایبٹ آباد خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے 3 روز میں مکمل کی۔ پہلی رات ہم نے بھوربن ریسٹ ہاؤس میں گزاری اور دوسری رات ہم نے ایبٹ آباد کے راستے میں گھوڑا ڈھاکہ کے مقام پر بسر کی۔ اس طرح ہم تیسرے دن دوپہر ایک بجے ایبٹ آباد پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کے اعزاز میں ظہرانہ
تعلیمی سفر
گورنمنٹ ہائی سکول جڑانوالہ اْردو میڈیم سے میٹرک کرنے کے بعد 1958ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا داخل ہونا میرے لئے بڑے فخر و انبساط کا باعث تھا۔
میں نے انٹرمیڈیٹ میں انگریزی لازمی کے ساتھ اقتصادیات، تاریخ اور سوکس مضامین اختیار کئے تھے۔ لیکن ایک ماہ تک پروفیسر عبدالستار چاولہ سے تاریخ پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ تاریخ تو بہت آسان مضمون ہے، کیوں نہ نیا مضمون شماریات پڑھا جائے۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ مضمون تبدیل کر کے میں نے زندگی کی بہت بڑی غلطی کی تھی، مجھے ریاضی کبھی پسند نہ تھا، شماریات رکھ کر میں نے اپنے رحجانِ طبع کے خلاف فیصلہ کیا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں ایف اے کے امتحان میں تمام مضامین میں پاس ہو گیا۔ لیکن شماریات میں فیل ہو کر ایف اے پاس کرنے میں ناکام رہا۔ اکیڈیمکس میں یہ میری پہلی ناکامی تھی، جس کا باعث بڑوں کے (والد صاحب کے دوست سید نذیر رضوی) فیصلے کے خلاف کم سنی میں تمام جزویات پر غور کئے بغیر یہ فیصلہ لینا تھا۔ ظاہر ہے اس نتیجے سے والد صاحب کو بہت دْکھ اور مایوسی ہوئی۔
میں زندگی کی دوڑ میں ایک سال پیچھے رہ گیا کیونکہ اْن دنوں سپلیمنٹری امتحان کا کوئی تصور نہ تھا۔ ایک اختیاری مضمون میں بھی فیل ہونا تمام مضامین میں فیل ہونے کے مترادف تھا اور اگلے سال تمام مضامین کا امتحان دینا پڑتا تھا۔ بہرحال اگلے سال میں نے شماریات سمیت تمام مضامین کا امتحان دے کر خدا خدا کر کے 1961ء میں انٹرمیڈیٹ امتحان پاس کر لیا۔
(جاری ہے)
نوٹ:
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔