زندگی ایک ہی ڈگر پر چلتی جارہی تھی، شام اچھی کٹ جاتی تھی، رمی میں میں اس کا پتہ روک لیتا، اسے جتا دیتا اور خود ہار جاتا، یہ ہار مجھے آج بھی پسند ہے۔

مصنف کی معلومات

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 191

یہ بھی پڑھیں: جسٹس یحییٰ آفریدی آج چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدےکا حلف اٹھائیں گے

سیاسی منظر نامہ

الیکشن 88 ہوچکے تھے۔ مرکز میں بی بی کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جبکہ صوبے میں نواز شریف کی مسلم لیگ کی۔ اس ملک کی کمزور جمہوریت کے لئے یہ صورت حال ایک بڑا امتحان تھی۔ مرکز میں ایک سیاسی پارٹی اور صوبے میں دوسری، متضاد نظریہ والی حکومتیں، ایک دوسرے کے منڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے والی۔ اس کے بعد کی سیاست میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: موسیٰ خیل، کوئٹہ میں فائرنگ کے تبادے میں مبینہ 4 دہشتگرد ہلاک

لالہ موسیٰ بازار

لالہ موسیٰ شہر کے 2 بازار ہیں۔ ایک مین بازار اور دوسرا تنگ بازار۔ دونوں میں ہی بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ بڑے قصبے ہونے کے سبب ارد گرد دیہاتوں کے لوگ یہاں امڈ آتے ہیں۔ مین بازار کے "کارنر سموسے شاپ" اور تنگ بازار کی بھیڑ اور "ومٹو کی بوتل" مشہور تھیں۔ (کارنر سموسہ شاپ والوں کو تو اللہ نے خوب نوازا کہ انہوں نے اب کئی منزلہ عمارت تعمیر کر لی ہے۔ اگر آپ نے ان دونوں کا لطف نہیں لیا تو آپ لالہ موسیٰ نہیں آئے۔ یوں کہہ لیں یہ لالہ موسیٰ کی سوغات تھیں۔) مجھے تو یہاں کے ٹکی کباب بھی بہت پسند تھے۔ (میں تو انہیں ڈوگی کباب ہی کہتا تھا۔) لالہ موسیٰ مین بازار جہاں سے شروع ہوتا اس کے کونے پر ٹکی کباب کی ریڑھی سر شام سج جاتی تھی اور رات گئے تک لوگوں کی بھیڑ رہتی تھی۔ مجھے بھی جب زبان کا ذائقہ "زیادہ سلونا" کرنے کا دل کرتا، تو مہینے میں ایک بار مشتاق اور کبھی کبھی مرتضیٰ بھی یہاں آتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ثنا یوسف کے خاندان میں ایک لڑکے کے ساتھ بات طے کردی گئی تھی اور نیا دعویٰ سامنے آگیا

احساس سے نحاس تک

میچنگ گرانٹ ایک عمدہ سکیم تھی جس میں علاقے کے لوگ اپنی ضرورت کی سکیم کے لئے اپنے حصے کی رقم جمع کراتے یا مزدوری خود دینے کا تحریری وعدہ کرتے اور باقی رقم حکومت ادا کرتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں 50 فیصد حصہ حکومت کا اور باقی 50 کمیونٹی کا ہوتا تھا۔ اسی لئے یہ میچنگ گرانٹ کہلاتی تھی۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی، کام پائیدار اور مقامی لوگوں کی نگرانی میں ہوتا تھا، اور لوگوں میں اپنی مدد آپ کا جذبہ جوان رہتا تھا۔ بلدیاتی نظام کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اپنے وسائل سے اپنے مسائل کا حل۔ نئے سال کے لئے میچنگ گرانٹ کے تحت لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنا حصہ جمع کرانے لگے تھے۔ جونیجو صاحب کے دور میں منتخب نمائندوں کو جاری ہونے والی رقم نے 90 کی دہائی میں اس سکیم کو مکمل طور پر بند کر دیا، جس نے مقامی مسائل کو حکومتی رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کسی حکومتی شخصیت کا عمران خان سے رابطہ ہوا، نہ کوئی مذاکرات، نہ پیشکش ہوئی: سینیٹر عرفان صدیقی

شخصی زندگی

زندگی ایک ہی ڈگر پر چلتی جارہی تھی۔ دفتر گھر سے اتنا دور تھا کہ میں چندا کو جھانک کر دیکھ سکتا تھا۔ شام کو کبھی پاک پور سرامکس آصف کے گھر چلے جاتے، کبھی شمعون کے گھر، کبھی ادریس بھائی کے گھر۔ شام اچھی کٹ جاتی تھی۔ گھر پر ہوتے تو میں کبھی اس کے ساتھ تاش کا کھیل "رمی" کھیلتا اور کبھی لڈو۔ رمی میں میں اس کا پتہ روک لیتا۔ وہ کہتی "بس میں ایک ہی پتے پر بیٹھی ہوں" اور پھر میں وہ پتہ پھینک کر اسے جتا دیتا تھا اور خود ہار جاتا۔ یہ ہار مجھے آج بھی پسند ہے۔

نوٹ

(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...