میرے بلاوے سے زیادہ شاید اسے موت کا بلاوا تھا، وقت جب پورا ہو جائے تو نہ کسی کی آواز سنائی دیتی ہے نہ کسی کے کہنے پر کوئی رکتا ہے

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 195
نا جانے کیوں ہمارے سینئرز نے ہم سے اجنبیوں والا رویہ اپنایا تھا۔ بڑی بددلی سے پیش آتے، ساری سروس میں ہی ان کے اور ہمارے درمیان بڑا communication gap رہا۔ گنتی کے چند ہی اچھے افسر تھے، جیسے چوہدری ریاض احمد، میاں ارشد وغیرہ۔ ان کے علاوہ کوشش کے باوجود کوئی اور نام ذہن کے کینوس پر نہیں ابھرا۔ میں نے اسی وقت خود سے دو وعدے کئے تھے:
- اگر کبھی میرے دفتر کا فیلڈ وزٹ ہوا اور مجھے موقع ملا تو میں افسران کو ان کے شایان شان ویلکم کروں گا تاکہ انہیں احساس ہو کہ واقعی وہ افسر ہیں۔
- اگر کبھی مجھے اکیڈمی کو ہیڈ کرنے کا موقع ملا تو یہاں سہولیات کے حوالے نمایاں تبدیلیاں لاؤں گا۔
اللہ نے پہلی خواہش تو نوکری کے چند ماہ میں ہی پوری کر دی جبکہ دوسری کے لئے مجھے 2 دھائیوں سے زیادہ کا انتظار کرنا پڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: روزانہ ایک امرود کھانے کے حیرت انگیز فوائد جانیے
موت کے سفر پر
ایک شام میں اور عظمیٰ پاک پور جانے کے لئے غلام محمد کی بائیک پر گھر سے نکلے۔ مغرب کا وقت تھا۔ ابھی جی ٹی روڈ دو رویہ نہ ہوئی تھی۔ سامنے سے آنے والی بس اسی سمت جاتے بابے سائیکل سوار کے پاس سے تیزرفتاری سے گزری اور گزرتی بس کے ہوا کے پریشر سے بابا سنبھل نہ سکا اور سائیکل سمیت نیچے گر گیا۔ میں نے موٹر سائیکل روکی اور اس کے پاس پہنچا۔ سر سے بہنے والے خون سے اس کا چہرہ لال ہو گیا تھا۔ اسے تانگے میں ڈال کر سامنے بنیادی صحت مرکز لے آیا۔ افسوس ڈاکٹروں کی پوری کوشش کے باوجود بابے کی جان نہ بچائی جا سکی۔ سر پر لگنے والی چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی۔ یہ باریش بابا سائیکل پر گھر کے لئے گیس کا سلنڈر لے جا رہا تھا۔ بچے سلنڈر کے انتظار میں تھے اور موت اس کے تعاقب میں۔ ہمارے ملک میں سائیکل آج بھی غریب کی سواری ہے۔ یہ غریب بیچارے جسمانی طور پر بھی اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ قریب سے گزرتی بس یا ٹرک کے ہوا کے پریشر سے بعض اوقات توازن قائم نہیں رکھ سکتے اور حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں نے جی ٹی روڈ پر اسی جگہ کے قریب اکیڈمی کے باورچی یتیم علی کو بھی ایسے ہی ایک حادثے میں جان گنواتے دیکھا تھا۔ اتفاق سے وہ بھی گیس سلنڈر لے کر ہی آ رہا تھا۔ جب موت کی دستک ہوتی ہے تو پھر انسان کو اور کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی اربوں ڈالرز کی کھجور ایکسپورٹ پر منفی اثرات کی وجوہات
یادیں اور حادثات
ان حادثوں سے کئی سال بعد کھاریاں میں میرا نائب قاصد محمدصادق دوپہر کے وقت اپنی گھریلو پریشانی مجھ سے شئیر کرکے پریشانی کے عالم میں دفتر سے گھر جانے کے لئے نکلا۔ نہ جانے کیوں خیال آیا کہ مجھے صادق کو نہیں جانے دینا چاہیے تھا۔ میں نے پوری قوت سے آواز لگائی؛ "چاچا صادق، چاچا صادق"۔ وہ بغیر سنے چلتا ہی چلا گیا۔ میرے بلاوے سے زیادہ شاید اسے موت کا بلاوا تھا۔ وقت جب پورا ہو جائے تو نہ کسی کی آواز سنائی دیتی ہے نہ کسی کے کہنے پر کوئی رکتا ہے۔ دفتر سے نکلنے کے بمشکل تین چار منٹ بعد صوفی نذیر دوڑتا آیا "سر! صادق کا حادثہ ہو گیا۔" وہ بھی پاس سے گزرتی تیز رفتار بس کے پریشر سے گرا، سر پر چوٹ لگی، سی ایم ایچ میں دو دن بے ہوش رہا اور پھر زندگی کی بازی ہار گیا۔ وہ نہایت دین دار، نمازی، پرہیزگار انسان تھا۔ صبح صبح ہی دفتر آ جاتا اور قرآن کی تلاوت ایسی خوش الہانی سے کرتا کہ سننے والے پر وجد طاری ہو جاتا۔ اللہ کو ایسی نیک روحوں کا اپنے ہاں بھی انتظار رہتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو زیادہ دیر زمین پر رہنے نہیں دیتا۔ انسان کی زندگی اتنی ہی ہے جتنی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ دی ہے لیکن ایسی حادثاتی اموات دل کو بہت اداس کر جاتی ہیں۔ آج کئی سال کے بعد صادق کو یاد کرتے ہوئے اس کی موت کا لکھتے مجھے لگا وہ مسکراتا سائیکل چلاتا دفتر آ رہا ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔