ایرانی حملوں کے دوران اسرائیل کے عرب باشندے پناہ گاہوں سے محروم، الجزیرہ کی تہلکہ خیز رپورٹ

اسرائیل میں فلسطینی نژاد شہریوں کا خوف
تل ابیب (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایران کے میزائل حملوں کے دوران جب اسرائیلی شہری محفوظ پناہ گاہوں کی طرف دوڑے تو فلسطینی نژاد اسرائیلی شہریوں کو ان پناہ گاہوں سے باہر نکال دیا گیا یا داخلے سے روک دیا گیا۔
خطرناک راتیں
الجزیرہ کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حدود میں رہنے والے دو ملین فلسطینی نژاد شہری، جو آبادی کا تقریباً 21 فیصد ہیں، ان کے لیے یہ راتیں ہر لحاظ سے خطرناک تھیں۔ اکر کے قریب ایک یہودی اکثریتی رہائشی عمارت میں رہنے والی ایک اکیلی فلسطینی ماں سمر الراشد اپنی پانچ سالہ بیٹی جہان کو لے کر جیسے ہی عمارت کی پناہ گاہ کی طرف دوڑی، تو ایک یہودی ہمسائے نے عربی بولنے کی بنیاد پر دروازہ بند کر دیا۔ سمر نے بتایا کہ وہ عبرانی روانی سے بولتی ہیں، مگر پھر بھی ان کی وضاحت کو نظرانداز کر کے انہیں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
مساوی حفاظتی سہولیات کا دعویٰ
رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں تمام شہریوں کو مساوی طور پر حفاظتی سہولیات فراہم کیے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن عملاً فلسطینی قصبوں اور محلوں میں یہ سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسرائیلی ریاستی آڈیٹر کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد فلسطینی گھروں میں ایسی کوئی محفوظ جگہ نہیں جو حفاظتی معیار پر پوری اترتی ہو، جب کہ یہ شرح یہودی گھروں میں 25 فیصد ہے۔
پناہ گاہوں کی عدم دستیابی
لد شہر میں رہنے والی یارا سرور جو عبرانی یونیورسٹی میں نرسنگ کی طالبہ ہیں، بتاتی ہیں کہ ان کی تین منزلہ رہائشی عمارت میں نہ تو کوئی پناہ گاہ ہے، نہ ہی عمارت کی قانونی حیثیت مکمل ہے۔ ایرانی حملوں کے بعد ان کا خاندان شہر کے نئے علاقے کی طرف بھاگا، جہاں پناہ گاہیں موجود تھیں، لیکن وہاں بھی داخلے سے روک دیا گیا۔ لد میں انہیں بتایا گیا کہ صرف نئے فلیٹس کے یہودی مکینوں کو اجازت دی جا رہی ہے، چاہے دوسرے یہودی شہری یا فلسطینی ہوں، انہیں اجازت نہیں۔
سماجی خوف اور نقل مکانی
رپورٹ میں کئی فلسطینی شہریوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انہیں بمباری سے کم اور اپنے ہم وطنوں کے رویے سے زیادہ خوف محسوس ہوا۔ بعض افراد نے نقل مکانی کر کے اپنے رشتہ داروں یا دیہاتی علاقوں کا رخ کیا، جب کہ کچھ نے اردن جانے کا سوچا۔
حکومتی اداروں کی خاموشی
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے اس بیان کے باوجود کہ ایران کے حملے یہودیوں اور عربوں دونوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، زمینی حقائق مختلف ہیں۔ فلسطینی شہریوں کو ایک طرف بمباری کا سامنا ہے، دوسری طرف حکومتی ادارے اور مقامی باشندے ان کی حفاظت سے انکار کرتے ہیں۔ جنگ سے پہلے بھی فلسطینی نژاد اسرائیلی شہریوں کو صرف سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے پر گرفتار کیا گیا، جب کہ عربوں کے خلاف تشدد کی کھلی اپیلیں اکثر نظرانداز کی جاتی رہیں۔