روس آزاد اسلامی ریاستیں ہڑپ کرنے کے بعد سکون سے بیٹھ گیا تھا، اس لیے انگریز حکومت نے قندھار ریلوے لائن بچھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

مصنف کی تفصیلات

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 212

یہ بھی پڑھیں: ڈی چوک سے فرار علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی مانسہرہ میں پناہ، ہنگامی پریس کانفرنس کرینگے

انگریزوں کا دفاعی منصوبہ

انگریزوں کے دفاعی منصوبے کا تقاضہ تھا کہ ریل کی اس پٹری کو چمن سے آگے قندھار تک بڑھایا جائے، اس کے لیے سارے انتظامات بھی مکمل کر لیے گئے تھے اور ضروری تعمیراتی سامان بھی چمن پہنچا دیا گیا تھا۔ پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔ غالباً ان کو یقین ہو گیا تھا کہ اب اس سرحد پر ان کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ روس بھی بہت ساری آزاد اسلامی ریاستیں ہڑپ کرنے کے بعد افغانستان کی سرحد پر آ کر سکون سے بیٹھ گیا تھا اور اس کے آگے بڑھنے کے اب کوئی آثار نہ تھے۔ اس لیے انگریز حکومت نے قندھار ریلوے لائن بچھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اس مقصد کے لیے لایا گیا فولادی سامان اور مشینری وغیرہ واپس ہندوستان چلی گئی۔ لیکن ابھی تک وہاں تعمیراتی سامان کے پڑے رہنے کے آثار نظر آ جاتے ہیں۔ یوں اس عجیب و غریب سی برانچ لائن کا قصہ بھی ختم ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: علاقائی حریف کی سرپرستی میں دہشت گردی کا سامنا ہے: پاکستانی قونصلر کا اقوام متحدہ میں خطاب

کوئٹہ چمن لائن کی حالت

کوئٹہ چمن لائن پر اب بھی دن میں صرف ایک ہی پسنجر گاڑی آتی اور جاتی ہے، جس کے چھ سات ڈبوں میں بس برائے نام ہی مسافر ہوتے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک یہ ریلوے لائن بہت مقبول اور مصروف تھی۔ گاڑی میں کھچا کھچ مسافر بھرے ہوئے ہوتے تھے، اور کوئٹہ سے چلتے وقت اس کے ساتھ افغانستان بھیجا جانے والا سامان، تیل کے ٹینکر اور اجناس خصوصاً گندم کی ترسیل کے لیے مال گاڑی کے ڈبے بھی لگائے جاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب ؛سکولوں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا نوٹیفکیشن تبدیل،تعلیمی ادارے کب سے کب تک بند رہیں گے؟جانیے

تعمیراتی چیلنجز

گلستان اسٹیشن کے بعد چمن تک مسلسل چڑھائی ہے، اس لیے یہاں بھی آب گم اور کولپور کی طرح دوہری پٹڑی بچھائی گئی ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بلندی کی وجہ سے مسافر بوگیاں اور مال گاڑی کے ڈبوں کو کھینچنا ایک انجن کے بس میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا گلستان اسٹیشن پر مال گاڑی کے ڈبوں کو چھوڑ کر انجن صرف مسافر گاڑی ہی لے کر چمن جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حملے میں کون ملوث تھا؟ کھیئل داس کوہستانی کا بیان سامنے آگیا

موجودہ صورتحال

اسی دوران کہیں سے ایک دوسرا انجن گلستان اسٹیشن آتا ہے اور وہاں چھوڑے گئے مال گاڑی کی ڈبوں کو کھینچ کر چمن لے جاتا ہے، جہاں سے سارا مال اتار کر ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیج دیا جاتا ہے۔ بعدازاں یہی انجن اگلے دن مال گاڑی کے ڈبے لے کر واپس کوئٹہ آجاتا ہے۔ واپسی پر ایک تو مال گاڑی کے زیادہ تر ڈبے خالی ہوتے ہیں دوسرا سارا سفر نشیبی لائن پر ہے اس لیے کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یہ سارے کام ایک مربوط نظام کے تحت ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین کی دو کمپنیوں نے پاکستان سے گدھے کے گوشت کی برآمد کی درخواست کردی

ٹرانسپورٹ کا تبدیلی

یہاں بھی آج کل وہی مسئلہ ہے کہ تیز رفتار اور فوری طور پر مل جانے والی سواری مہیا ہو جانے کی وجہ سے مسافر ریل گاڑی کی طرف کم کم ہی مائل ہوتے ہیں اور اس ریل گاڑی کو برائے نام ہی استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ گاڑی کوئٹہ اور چمن کے درمیان چلائی جاتی ہے۔ افغانستان جانے والا سامان بھی اب ریل گاڑی کے بجائے ٹرکوں اور ٹریلروں میں آنے جانے لگا ہے، یوں مال گاڑی کی افادیت بھی ختم ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بابوسر ٹاپ: سیلابی ریلہ 13 سال بعد اکٹھے ہونے والے خاندان کی خوشیاں بہا لے گیا

بर्फ باری کا اثر

لیکن جب کبھی برف باری کی وجہ سے سڑک کا راستہ بند ہو جائے تو پھراس ریل گاڑی کی محبت جاگ اٹھتی ہے اور ان دنوں اس پر بے تحاشہ مسافر سفر کرتے ہیں، اور تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔

نوٹ

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...